’زندگی بچانے کے لیے بنُائی‘

یہ آلہ ٹوپی کی طرح لگتا ہے اور اسے مریض کے دل میں سوراخ کو بند کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے

،تصویر کا ذریعہBBC World Service

،تصویر کا کیپشن

یہ آلہ ٹوپی کی طرح لگتا ہے اور اسے مریض کے دل میں سوراخ کو بند کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے

روایتی دستکاری کی مہارت بولیویا میں دل کے نقائص کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کی زندگی بچانے کے لیے نہایت سود مند ثابت ہو رہی ہے۔

مقامی عامارا خواتین کو مخصوص ٹوپیاں اور جرسیاں بننے کا صدیوں کا تجربہ ہے اور اب وہ اپنی اس مہارت کو ایک جدید طبی کپڑا نما آلے کو بننے کے لیے استعمال کر رہی ہیں جو دل میں سوراخ کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کے دل میں سوراخ کو بند کرنے کے لیے بنایا جاتا ہے۔

اس انتہائی چھوٹے سے آلے کو ایک خاص صاف کمرے میں بننے والی’ کنٹر ڈئنیلا مینڈوزا‘ نامی خاتون کا کہنا ہے کہ ’ہمیں خوشی ہے کہ ہم کچھ ایسا کر رہے ہیں جس سے کسی کی زندگی بچ سکے۔‘

دل کے سوراخ کو بند کرنے کے لیے استعمال ہونے والے اس چھوٹے سے ٹکڑے کو ’نٹ اوکلڈ آلہ‘ یا ’اوکولڈر‘ کہا جاتا ہے اور اسے بننے میں کنٹر کو تقریباً دو گھنٹے لگتے ہیں۔

نٹ اوکلڈ آلہ ماہرامراضِ قلب ڈاکٹر فرانض فروڈینیتھل نے ڈایزائن کیا تھا۔ انھوں نے دل کے نقائص کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کی زندگیاں بچانے کی نیت سے لا پاز کے شہر میں اپنا کلینک کھولا تھا اور اب تک وہ سینکڑوں زندگیاں بچا چکے ہیں۔

یہ آلہ ٹوپی کی طرح لگتا ہے اور اسے مریض کے دل میں سوراخ کو بند کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

اگرچہ اوکولڈر صنعتی پیمانے پر بھی بنائے جاتے ہیں مگر ڈاکٹر فرانض کا ڈیزائن کیا ہوا اوکولڈر اپنے پیچیدہ تکنیکی ڈیزائن کی وجہ سے صنعتی پیمانے پر نہیں بنایا جاسکتا۔

اس لیے انھوں نے اس کو بنانے کے لیے بڑی تعداد میں روایتی دستکاری کی ماہر بولیوین خوتین کو بھرتی کیا ہوا ہے۔

شروع میں انھوں نے اس کا تجربہ دل کے نقائص کے ساتھ پیدا ہونے والی بھیڑوں پر کیا تھا جو کامیاب رہا۔

پھر انھوں نے اس کا استعمال بچوں کے دلوں کے سوراخ بند کرنے کے لیے کیا اور اب تک وہ کامیابی سے سینکڑوں بچوں کا علاج کر چکے ہیں۔ اس کے ساتھ اب وہ دنیا بھر میں اپنی نئی ایجادات برآمد بھی کرتے ہیں۔

 بولیویا  جنوبی امریکہ کا غریب ترین ملک ہے اور یہاں پر صحت کی سہولتوں کا فقدان ہے

،تصویر کا ذریعہBBC World Service

،تصویر کا کیپشن

بولیویا جنوبی امریکہ کا غریب ترین ملک ہے اور یہاں پر صحت کی سہولتوں کا فقدان ہے

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر فرانض کا کہنا تھا کہ ’ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم پیچیدہ مسائل کے سادہ حل نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

بولیویا جنوبی امریکہ کا غریب ترین ملک ہے اور یہاں پر صحت کی سہولتوں اور امراضِ قلب کے ماہر ڈاکٹروں جو دل کے مسائل کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کا علاج کر سکیں کا فقدان ہے۔ اس لیے علاج کے سستے طریقوں کو پسند کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر فرانض کے ایجاد کیے ہوئے آلے فوجی صنعتوں میں استعمال ہونے والی انتہائی لچکدار دھات کے ایک ریشے سے بننے جاتے ہیں۔

اس دھات کو نکل ٹئٹینیم ایلوے کہا جاتا ہے یہ اپنی شکل یاد رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کو جسم کے اندر ڈالے جانے والی نلی کے اندر تہہ کر کے ڈالا جاسکتا ہے جسے ڈاکٹر ران کے اندر ڈالتا ہے۔

یہ آلہ خون کی نالیوں میں سے ہوتا ہوا دل کے صیح مقام پر پہنچتا ہے تو خود بخود کھل کر سوراخ کو بند کر دیتا ہے۔ یہ ساری عمر کے لیے کارآمد ہوتا ہے اس لیے اسے تبدیل کرنے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی ہے۔

روائتی دستکاری اور اور جدید ٹیکنالوجی سے دل کے امراض کا اعلاج دریافت کرنے پر ڈاکٹر فرانض کو بین الاقوامی ایوارڈز سے بھی نوازاگیا ہے۔

بغیر آپریشن کے اس طریقہ علاج کو مقامی لوگ بھی پسند کرتے ہیں کیونکہ کچھ مقامی گروہوں کا خیال ہے کہ دل کا آپریشن انسانی روح کی بے حرمتی کے مترادف ہے۔

بولیویا کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں بچوں کی شرح اموات بہت زیادہ ہے

،تصویر کا ذریعہBBC World Service

،تصویر کا کیپشن

بولیویا کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں بچوں کی شرح اموات بہت زیادہ ہے

ڈاکٹر فرانض کا کہنا ہے کہ ’اس طریقہ علاج سے ہم مریض کے خاندان والوں کی خواہش کا بھی احترام کر رہے ہیں جو نہیں چاہتے کے ان کے بچوں کا آپریشن کیا جائے۔‘

خیال رہے کہ جن لوگوں کے دل میں سوراخ ہو وہ اکثر تھکاوٹ کا شکار رہتے ہیں کیونکہ ان کے دل کو جسم میں خون کی فراہمی کرنے کے لیے صحتمند دل کے مقابلے میں تین گناہ زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔

ڈاکٹر فرانض کا ایجاد کیا ہوا یہ آلہ دل کا سوراخ بند کر کے مریض کے دل کو صحتمند طریقے سے کام کرنے میں مدد دیتا ہے۔

پیدا ہونے سے پہلے بچہ آکسیجن ماں سے حاصل کرتا ہے۔ ایک خون کی شریان خون کو پھیپھڑوں کو نظر انداز کرنے میں مدد فراہم کرتی ہے اور پیدائش کے بعد یہ خود بخود بند ہوجاتی ہے۔ لیکن اگر یہ بند نہ ہو تو دل میں خون کا بہاو غیر متناسب ہوجاتا ہے۔

اس سے سانس لینے میں دقت جیسے مسائل پیدا ہو سکتے لیکن اکثر جب مسئلہ زیادہ گھمبیر نہ ہو تو اس کی کوئی علامات ظاہر نہیں ہوتیں۔

ڈاکٹر فرانض کے مطابق لا پاز کا شہر سمندر سے چار ہزار میٹر کی بلندی پر واقع ہے جس کی وجہ سے یہاں آکسیجن کی کمی ہے اور اسی وجہ سے دوسرے ممالک کے مقابلے میں یہاں اس طرح کے مسائل دس گناہ زیادہ ہیں۔

بولیویا کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں بچوں کی شرح اموات بہت زیادہ ہے۔

کم ازکم ڈاکٹر فرانض فروڈینیتھل کے کلینک میں موجود مریضوں کے مسلے کا حل انتہائی ماہر خواتین کے ہاتھ میں ہے جن کے پاس دل کو ٹھیک کرنے کی قوت ہے۔

ہم کہ سکتے ہیں کہ وہ زندگی بچانے کے لیے بنائی کر رہی ہیں۔