’بلوچ موسیقی کو دنیا بھر میں سراہا جا رہا ہے‘

  • نخبت ملک
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
ماریا پومیونووسکا کہتی ہیں کہ پاکستان میں سروز ساز بجانے والے استاد سّچوُ خان کی وہ بہت بڑی فین تو ہیں مگر بلوچی موسیقی میں وہ طاقت ہے جو انہیں پاکستان آنے پر مجبور کرتی ہے
،تصویر کا کیپشن

ماریا پومیونووسکا کہتی ہیں کہ پاکستان میں سروز ساز بجانے والے استاد سّچوُ خان کی وہ بہت بڑی فین تو ہیں مگر بلوچی موسیقی میں وہ طاقت ہے جو انہیں پاکستان آنے پر مجبور کرتی ہے

’میں پاکستان کے بلوچ موسیقاروں کے ساتھ موسیقی بجانے کے خواب دیکھا کرتی تھی۔ اس لیے میں نے یہاں کے لوگوں کو درخواست کی کہ وہ کسی زبردست ’استاد جی‘ کو تلاش کریں، اور آج میرا یہ خواب پورا ہوا اور میں بہت خوش ہوں۔‘

یہ الفاظ، پولینڈ کے دارالحکومت وارسا سے آئی ماریا پومیونووسکا کے ہیں جو ایک بار پہلے بھی پاکستان آ چکی ہیں اور یہاں سارنگی، طبلہ اور ڈھولک نوازوں کے ساتھ کام کر چکی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دنیا میں بھر میں پاکستان کی بلوچ موسیقی کو شاید سب سے زیادہ سراہا جا رہا ہے اور اس سے متاثر ہو کر لوگ بہت سی تخلیقات کر رہے ہیں۔

’میں سارنگی بھی بجاتی ہوں۔ اور میں بھارت میں اسّی کی دہائی میں سارنگی سیکھ چکی ہوں۔ میں نے پولینڈ میں قریب ایک سو سال پہلے بجائے جانے والے دو پولش سازوں کو زندہ کیا ہے۔ انہیں دوبارہ بنایا ہے جس کے لیے میں بھارت میں سارنگی اور پاکستان میں بلوچی موسیقاروں کی شکر گزار ہوں۔‘

ماریا پومیونووسکا کے بحال کیے گئے یہ دونوں ساز ’سٹرنگ انسٹرومنٹس ہیں‘ جنہیں مغربی انداز میں بیان کریں تو دیکھنے میں وائلن نما ہیں مگر ماریا کہتی ہیں کہ پاکستان کے بلوچی ساز سروز سے ان کی شکل ملتی ہے اور بجائیں تو برصغیر کی سارنگی کی آواز ان میں جھلکتی ہے۔

ماریا پومیونووسکا کے بحال کیے گئے یہ دونوں ساز ’سٹرنگ انسٹرومنٹس ہیں‘ جنہیں مغربی انداز میں بیان کریں تو دیکھنے میں وائلن نما ہیں مگر ماریا کہتی ہیں کہ پاکستان کے بلوچی ساز سروز سے ان کی شکل ملتی ہے اور بجائیں تو برصغیر کی سارنگی کی آواز ان میں جھلکتی ہے
،تصویر کا کیپشن

ماریا پومیونووسکا کے بحال کیے گئے یہ دونوں ساز ’سٹرنگ انسٹرومنٹس ہیں‘ جنہیں مغربی انداز میں بیان کریں تو دیکھنے میں وائلن نما ہیں مگر ماریا کہتی ہیں کہ پاکستان کے بلوچی ساز سروز سے ان کی شکل ملتی ہے اور بجائیں تو برصغیر کی سارنگی کی آواز ان میں جھلکتی ہے

’میں نے بھارت سے موسیقی سیکھنے کے بعد، پہلی بار ان سازوں پر جب اپنے ملک میں ’تہائی‘ بجائی تو لوگوں نے مجھ سے دریافت کیا کہ میں نے یہ انگ کہاں سے سیکھا۔ میں فخر محسوس کرتی ہوں یہ کہنے میں کہ گانے کو خوبصورتی اور مؤثر انداز میں اس کے اختتام تک پہنچانا یعنی ’تہائی‘ میں نے بھارت اور پاکستان سے سیکھی ہے۔‘

ماریا پومیونوسکا کا یہ دوسرا دورہ پاکستان میں ہے۔ وہ اس سال جنوری میں افریقہ میں پرفارم کر چکی ہیں اور گزشتہ دو مہینوں میں بھارت اور ایران کے راستے ایک بار پھر پاکستان پہنچی ہیں۔

ماریا کا کہنا ہے کہ یہ واحد ملک ہے جس نے انہیں دارالحکومت اسلام آباد سے باہر جانے اور پاکستان کے کسی اور شہر میں گھومنے کی اجازت نہیں دی۔

’میں ہمیشہ اسلام آباد میں مقیم رہی ہوں اس لیے یہ نہیں کہہ سکتی کہ یہ پاکستان ہے۔ ہاں یہاں آ کر جنت میں آنے کا احساس ضرور ہوتا ہے مگر میں جانتی ہوں کہ اس شہر سے باہر باقی ملک میں لوگوں کی زندگی آسان نہیں۔‘

ماریا کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ پچیس سالوں سے پاکستان کی ثقافت کو جانتی ہیں اور بھارت اور پاکستان کے درمیان انہوں نے موسیقی کی اقسام اور سازوں میں بہت سی ہم آہنگی محسوس کی ہے۔

’میرے نزدیک یہ بہت اچھی بات ہے اور میں اسلام آباد میں بہت اچھا محسوس بھی کرتی ہوں۔ مگر میں جانتی ہوں کہ اس ملک کے بہت سے مسائل ہیں اس لیے میں دارالحکومت تک ہی محدود رہتی ہوں اور پولش سفارت خانے کے تمام احکامات پر عمل کرتی ہوں۔ اس سے زیادہ میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔‘

ماریا کے نزدیک موسیقی کے حوالے سے بات کریں تو اس سلسلے میں سب سے زیادہ مشکل انہیں ایران میں پیش آئی۔

ماریا کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ پچیس سالوں سے پاکستان کی ثقافت کو جانتی ہیں اور بھارت اور پاکستان کے درمیان انہوں نے موسیقی کی اقسام اور سازوں میں بہت سی ہم آہنگی محسوس کی ہے
،تصویر کا کیپشن

ماریا کا کہنا ہے کہ وہ گزشتہ پچیس سالوں سے پاکستان کی ثقافت کو جانتی ہیں اور بھارت اور پاکستان کے درمیان انہوں نے موسیقی کی اقسام اور سازوں میں بہت سی ہم آہنگی محسوس کی ہے

’ایران ایک مخصوص ملک ہے۔ مجھے وہاں اونچی آواز میں گانے نہیں دیا گیا۔ میں نے سٹیج پر پرفارمنس کے دوران حجاب پہنا۔ اور مجھے محض مردوں کے ساتھ بجانے کی اجازت دی گئی تھی کیونکہ وہاں خواتین کو سٹیج پر پرفارم کرنے کی اجازت ہی نہیں۔ لیکن میں نے بہت اونچی آواز میں گانا گایا جس پر اس کانسرٹ کو منسوخ کر دیا گیا۔ یوں مجھے اپنی آواز اونچی کرنے کی سزا بھی ملی۔‘

لیکن ماریا کا کہنا ہے کہ ایران، بھارت اور پاکستان میں انہیں محسوس ہوا کہ عام لوگ ہر طرف ایک ہی جیسے ہوتے ہیں۔

’ایرانی عوام انتہائی زبردست ہیں، بھارت سے مجھے دلی لگاؤ ہے اور اسے میں اپنا دوسرا گھر مانتی ہوں۔ اور پاکستان میں میں نے عوام میں بہت گرم جوشی محسوس کی ہے۔ اس لیے میں نے یہی نتیجہ نکالا کہ عام لوگ کسی بھی ملک میں ہوں انہیں محض محبت، موسیقی اور سکون کی ضرورت ہے‘

ماریا پومیونووسکا کہتی ہیں کہ پاکستان میں سروز ساز بجانے والے استاد سّچوُ خان کی وہ بہت بڑی فین تو ہیں مگر بلوچی موسیقی میں وہ طاقت ہے جو انہیں پاکستان آنے پر مجبور کرتی ہے۔