’گاندھی کی جگہ ان کے قاتل کا مجسمہ چاہیے‘

  • شکیل اختر
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، نئی دہلی
بھارت میں غیر کانگریسی لوگوں کی ایک بڑی تعداد گاندھی جی کے عدم تشدد اور ان کے سیاسی فلسفے میں یقین نہیں رکھتی لیکن نئی نسل کے اگثر لوگوں کے لیے یہ تصور قابل قبول نہیں ہے کہ گاندھی کے قاتل کا مجسمہ لگایا جائے

،تصویر کا ذریعہNana Godse

،تصویر کا کیپشنبھارت میں غیر کانگریسی لوگوں کی ایک بڑی تعداد گاندھی جی کے عدم تشدد اور ان کے سیاسی فلسفے میں یقین نہیں رکھتی لیکن نئی نسل کے اگثر لوگوں کے لیے یہ تصور قابل قبول نہیں ہے کہ گاندھی کے قاتل کا مجسمہ لگایا جائے

’جو لوگ ہندو مسلم اتحاد کی بات کرتے ہیں وہ ملک کے دشمن ہیں کیونکہ یہی لوگ پہلے ملک تقسیم کر چکے ہیں۔‘

اس طر ح کے کئی نعرے اور اقوال سخت گیر ہندو تنظیم ہندو مہا سبھا کے دفتر کی دیواروں پر لکھے ہوئے ہیں۔

میرٹھ کے گنجان شاردا روڈ پر واقع مہا سبھا کے اسی دفتر میں گاندھی کے قاتل ناتھو رام گوڈسے کا مجسمہ نصب کیا جانا ہے۔

ہندو مہا سبھا نے اترپردیش کے سیتا پور ضلع میں گوڈسے کا ایک مندر بنانے کا بھی اعلان کیا ہے۔

مقامی انتظامیہ نے نقص امن کے اندیشے کے باعث مجسمہ نصب کرنے کی تقریب نہیں ہونے دی۔

ہندو مہا سبھا کے نائب صدر پنڈت اشوک کمار شرما کہتے ہیں ’گوڈسے ہندو مہا سبھا کے آئیڈیل ہیں۔ وہ ایک محب وطن شہری تھے اور انھوں نے گاندھی کا قتل کر کے کوئی غلطی نہیں کی تھی کیونکہ گاندھی نے ملک تقسیم کیا تھا۔‘

گوڈسے ہندو راشٹر کے حامی تھے اور اور ملک کی تقسیم کے سسب ہی انھوں نے سنہ 1948 میں گاندھی کا قتل کیا تھا۔

پنڈت اشوک کہتے ہیں کہ گاندھی خیالات کے مردے کو کب تک اٹھائے پھریں گے، ان پالیسیوں سے کچھ نہیں ملا ہے۔

’ہم اس یقین کے ساتھ زندہ ہیں کہ آج نہیں تو کل بھارت پھر متحد ہو گا اور ہمارا اکھنڈ بھارت کا خواب پورا ہو گا۔ ملک کی تقسیم سے بہت نقصان ہوا ہے۔‘

گوڈسے اور ہندو مہاسبھا کے خیالات سے صرف ہندو نواز تنظیمیں ہی نہیں بہت سے دوسرے لوگ بھی متفق نظر آتے ہیں۔

میرٹھ کی ایک کاروباری شخصیت سنیل تنیجا گاندھی کے قتل کو بالکل صحیح تصور کرتے ہیں۔

’گاندھی کا قتل بالکل جائز تھا۔ گاندھی نے ملک کو تقسیم اور اسے کمزور کیا۔ میرے خیال میں نام نہاد بابائے قوم گاندھی کا جہاں جہاں مجسمہ لگا ہوا ہے وہا گوڈسے کا مجسمہ نصب کیا جانا چاہیے۔‘

بھارت میں غیر کانگریسی لوگوں کی ایک بڑی تعداد گاندھی جی کے عدم تشدد اور ان کے سیاسی فلسفے میں یقین نہیں رکھتی لیکن نئی نسل کے اکثر لوگوں کے لیے یہ تصور قابل قبول نہیں ہے کہ گاندھی کے قاتل کا مجسمہ لگایا جائے۔

مرکز میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد پورے ملک میں ہندو نواز تنظیمیں سرگرم ہو گئی ہیں۔

گوڈسے کی مورتیاں لگانے کی کوشش کو بھی اسی پس منظر میں دیکھ جا رہا ہے۔

معروف دانشور اور تجزیہ کار سبھاش گھٹاڈے کہتے ہیں کہ ملک میں سیکیولر تحریک کمزر ہوئی ہے۔

’میں گوڈسے کی مورتی کے سوال کو ہندو راشٹر کے تصور سے جوڑ کر دیکھتا ہوں۔ بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد ہندو نواز طاقتیں بہت مضبوط ہوئی ہیں اور سیکیورزم زبردست دباؤ میں ہے۔‘

میرٹھ اور اتر پردیش کے کئی دیگر مقامات پر انتظامیہ نے گوڈسے کا مجسمہ نہیں لگنے دیا اور ان کا مندر بنانے کی اجازت نہیں دی لیکن ہندو مہا سبھا کا کہنا ہے کہ یہ صرف گوڈسے کی مورتی نصب کرنے کا سوال نہیں ہے ۔ یہ نظریے کی لڑائی ہے۔ ان کے مطابق یہ ہندو راشٹر اور اکھنڈ بھارت کی لڑائی ہے۔