’وہ چُن چُن کر مارتے ہیں‘

  • طاہر عمران
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
صحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس پاکستان کو دنیا میں صحافیوں کے لیے بدترین ملک قرار دیتی ہے

،تصویر کا ذریعہAP

،تصویر کا کیپشنصحافیوں کے تحفظ کی عالمی تنظیم کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس پاکستان کو دنیا میں صحافیوں کے لیے بدترین ملک قرار دیتی ہے

ابھی چند ہفتے ہی پہلے ایکسپریس نیوز کے اینکر رضا رومی پر لاہور میں قاتلانہ حملہ ہوا تھا۔ سنیچر کو جیو نیوز کے ممتاز صحافی حامد میر کراچی میں ہونے والے ایک قاتلانہ حملے میں زخمی ہوگئے ہیں۔

جب رضا رومی پر حملہ ہوا تو ذرائع ابلاغ نے جس طرح اس کی کوریج کی وہ حامد میر پر حملے کی کوریج سے مختلف تھی۔

ایک آدھ چینل کے سوا تمام پاکستانی چینلز حامد میر پر حملے کو ’جیو نیوز‘ کے صحافی کے حوالے سے نشر کر رہے ہیں مگر رضا رومی پر حملے کے وقت ایسا نہیں ہوا تھا۔

رضا رومی ایکسپریس گروپ کے اخبار ٹریبیون کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں اور اسی گروپ کے چینل کے لیے شو کرتے ہیں مگر ان پر حملے کی خبر ایکسپریس ٹریبیون پر کچھ یوں نظر آئی’گاڑی پر حملہ، ایک ہلاک، ایک زخمی۔‘

سنیچر کو حامد میر پر حملے کی خبر بھی ایک دوسرا پاکستانی چینل (اے آر وائی) نشر نہیں کر رہا۔

سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستانی میڈیا کا انتشار اس کے اپنے لیے خسارے کا سودا تو نہیں ہے؟

صحافیوں کی تنظیم پی ایف یو جے سے تعلق رکھنے والے معروف صحافی مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ’بدقسمتی سے ابھی میڈیا کے اداروں کے درمیان جو چپقلش ہے اور جو اختلافات ہیں اس کے نتائج ایک ورکنگ جرنلسٹ کو اور اخباری کارکنوں کو بھگتنے پڑ رہے ہیں۔ لوگ ’نجی چینل‘ کہہ کر یا ’نجی اخبار‘ کہہ کر بات کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔‘

مگر اس کی وجہ کیا ہے؟ آخر ان سب اداروں کے کارکن میڈیا سے کسی نہ کسی واسطے سے تعلق تو رکھتے ہیں۔ ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں۔

جب یہ سوال ایکپسریس ٹریبیون کے مدیر ایم ضیاءالدین سے پوچھا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا میڈیا، خاص کر میڈیا کے اداروں کے مالکان مکمل مکمل طور پر بے حس ہو چکے ہیں اور مکمل طور پر مارکیٹ کے نام بک چکے ہیں۔وہ مقابلہ بازی اور بہتر ریٹنگ کے لیے ایک دوسرے کی عزت کرنا بھول چکے ہیں۔‘

کیا عام صحافی یا ورکنگ جرنلسٹ بھی اسی تفرقے کا شکار ہے؟

جب حامد میر پر حملہ ہوا تو ڈان کے میگزین ایڈیٹر ضرار کھوڑو نے ٹویٹ کی کہ ’جیو نیوز نوٹ کر لے کہ تمام میڈیا ان کا نام لے کر خبر نشر کر رہا ہے۔‘

دوسری جانب اگر رضا رومی پر حملے کے واقعے پر ردِ عمل کا جائزہ لیا جائے تو جیو نیوز کے اینکر نجم سیٹھی نے بھی اپنے شو میں ایکسپریس نیوز کا نام لینے سے کم و بیش اجتناب کیا اور رضا رومی کو ایک سے زیادہ بار ’ایک صحافی‘ کہنا مناسب سمجھا۔

تو کیا پے در پے حملوں کے بعد پاکستانی میڈیا اس حقیقت سے آشنا ہو رہا ہے کہ اس کی بقا اس کے اتحاد میں چھپی ہے اور یہ کہ اس بات کا ادراک ہو رہا ہے کہ ایک صحافی یا اینکر پرسن پر حملہ پورے میڈیا پر حملہ ہے؟

صحافیوں کی تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے مظہر عباس کا کہنا ہے کہ ’جب حامد میر پر حملہ ہوا تو یہ سوچ سامنے آئی مگر بدقسمتی سے یہ کبھی کبھی سامنے آتی ہے۔ حامد میر جتنے بڑے اینکر ہیں آپ اگر ان کا نام نہیں بھی لیتے تو سب کو معلوم ہے کہ حامد میر کہاں کام کرتا ہے اور کس سے منسلک ہے۔‘

سنیچر کو حامد میر کراچی میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے زخمی ہو گئے
،تصویر کا کیپشنسنیچر کو حامد میر کراچی میں نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ سے زخمی ہو گئے

دوسری جانب ضیاء الدین کہتے ہیں کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ میڈیا متحد ہو پائےگا۔ اب بھی دیکھ لیں جو اے آر وائی کی پوزیشن ہے جیو کے حوالے سے انھوں نے بلیک آؤٹ کیا ہوا ہے۔ تو یہ تھوڑے دن تک بات چلے گی۔‘

ضیاء الدین نے مزید کہا کہ ’ہمارے ادارے پر کئی بار حملے ہوئے مگر ان کی رپورٹنگ اس طرح کی گئی جیسے کسی اور جزیرے پر یہ واقعہ ہوا ہو۔ نہ نام، نہ کسی چینل کا نام، ہمارے میڈیا نے ایک وطیرہ بنا لیا ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے میرا یہ خیال ہے کہ حملے ہو رہے ہیں کیونکہ کوئی اتحاد نہیں ہے۔‘

ایم ضیا الدین کا کہنا ہے کہ گذشتہ دنوں افغانستان میں ایک صحافی کو اس کے خاندان سمیت ہلاک کیا گیا تو افغانستان کے سارے میڈیا نے پندرہ دنوں تک طالبان کی کوئی کوریج نہیں کی۔ ’اس قسم کا اتحاد ہمارے ہاں نہیں ہے۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ چن چن کر مارتے ہیں۔‘

اس طرح کے حملوں کے بعد اکثر پاکستانی سوشل میڈیا پر پاسٹر نیمو کا قول شیئر کیا جاتا ہے جسے اگر ہم آج کے پاکستانی میڈیا کے حالات پر لاگو کریں تو کچھ یوں بنے گا ’پہلے جب ایکسپریس پر حملہ کیا گیا تو میں نے کہا میں کوئی ایکپسریس کے لیے کام کرتا ہوں، مجھے کیا، پھر اس کے بعد جب جیو کے اینکر حامد میر پر حملہ کیا گیا تو میں نے سوچا ٹھیک ہے مگر میں جیو کا ملازم تو نہیں۔‘

پاسٹر نیمو کے اس تخیلاتی قول کا اگلا حصہ کوئی بھی پاکستانی صحافی اپنے چینل، اخبار کے مالکان اور ادارے کی مناسبت سے پُر کر سکتا ہے کیونکہ یہ تقریباً ہم سب پر صادق آتا ہے۔