’پاکستان کا ٹیکس نظام شفاف نہیں ہے‘

  • احمد رضا
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زراعت اور خدمات کے شعبے اب بھی بڑی حد تک ٹیکس کے دائرے سے باہر ہیں

،تصویر کا ذریعہBBC World Service

،تصویر کا کیپشنرپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زراعت اور خدمات کے شعبے اب بھی بڑی حد تک ٹیکس کے دائرے سے باہر ہیں

پاکستان کے ایک غیرسرکاری ادارے کے ملک گیر سروے میں 68 فیصد افراد نے کہا ہے کہ ملک کا ٹیکس کا نظام صحیح اور شفاف نہیں ہے۔

سسٹین ایبل ڈویلپمینٹ پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ایس ڈی پی آئی) کی جانب سے کرائے گئے سروے کے نتائج کے مطابق 91 فیصد ٹیکس دہندگان کا کہنا ہے کہ ان کے ٹیکس کی رقوم موثر طور پر استعمال نہیں ہوتیں اور غریب ترین لوگوں کی بہبود پر خرچ نہیں کی جاتیں۔

ایس ڈی پی آئی کے مطابق سروے میں پاکستان کے لیے ضروری معاشی اصلاحات کے متعلق لوگوں اور کاروباری افراد سے ان کی رائے معلوم کی گئی ہے۔

رپورٹ کے مطابق سروے کے دوران جن غیر رجسٹرڈ اور بے ضابطہ کاروباری اداروں سے بات ہوئی ان میں سے 57 فیصد کا کہنا ہے کہ حکومت کی کسی بھی ترغیبی سکیم کے ذریعے انھیں ٹیکس حکام کے پاس خود کو رجسٹر کرانے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔

رپورٹ کے مطابق یہ غیر رجسٹرڈ ادارے یہ بھی کہتے ہیں کہ حکومت ٹیکس کی آمدن بڑھانے کے لیے موجودہ ٹیکس دہندگان ہی پر مزید بوجھ ڈالتی ہے اور ٹیکس کے دائرے کو وسیع کرنے کے لیے کوئی سنجیدہ کوششیں نہیں کی جا رہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ زراعت اور خدمات کے شعبے اب بھی بڑی حد تک ٹیکس کے دائرے سے باہر ہیں۔

سروے کے مطابق 47 فیصد ٹیکس دہندگان سمجھتے ہیں کہ ٹیکس ریٹرن جمع کرانے کا طریقہ پیچیدہ ہے اور اسے سادہ بنانے کی ضرورت ہے۔ رپورٹ کے مطابق لوگ ایف بی آر کی ویب سائٹ میں مسائل کی بھی شکایت کرتے ہیں۔

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ 71 فیصد لوگ کہتے ہیں کہ جنرل سیلز ٹیکس کی شرح بہت زیادہ ہے اور معاشی ترقی اور متوسط اور نچلے طبقے کے لوگوں کو درپیش افراط زر کے دباؤ سے ہم آہنگ نہیں ہے۔

سروے میں معاشی ترقی اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے لیے فوری طور پر ضروری دو اصلاحات کی نشاندہی کی گئی ہے۔

1۔ حکومت کے بڑھتے ہوئے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ٹیکس اصلاحات

2۔ توانائی کے شعبے میں اصلاحات تاکہ نجی شعبے کو معاشی ترقی، کاروباری مسابقت اور منڈی تک رسائی میں مدد مل سکے

سروے رپورٹ کے مطابق ٹیکسوں کے اہداف میں کمی ملک کے معاشی رہنماؤں کے لیے تشویش کی بات ہونی چاہیے جو امن و امان پر اضافی خرچوں کی وجہ سے غربت کے خاتمے، تعلیم اور صحت کے شعبوں پر کم رقم خرچ کر رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق 77 فیصد کاروباری ادارے کہتے ہیں کہ انھوں نے شکایات کے باوجود ایف بی آر کو کبھی اپنی پریشانیوں سے آگاہ نہیں کیا کیونکہ اُن میں سے کئی ایک کو خدشہ ہے کہ ایسا کرنا مستقبل میں ایف بی آر کی جانب سے مداخلت کا سبب بن سکتا ہے۔

رپورٹ میں یہ دعویٰ بھی کیا گیا ہے کہ 31 فیصد لوگوں نے ماضی میں ٹیکس اہل کاروں کو جنس یا نقدی کی صورت میں تحائف دینے کا اعتراف کیا ہے۔

رپورٹ میں اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ گرمیوں کی آمد سے پہلے ہی صنعتی شعبے کو اوسطاً 12 گھنٹے یومیہ لوڈ شیڈنگ برداشت کرنا پڑ رہی ہے۔

توانائی کے متعلق اصلاحات کے بارے میں 53 فیصد افراد نے کہا کہ بجلی کی قیمتیں ان کے گھریلو بجٹ کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں اور 71 فیصد نے کہا کہ اس وجہ سے انھوں نے بجلی کا استعمال کم کر دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق کئی افراد نے یہ بھی بتایا کہ انھیں اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے خوراک، صحت اور تعلیم کا بجٹ بھی کم کرنا پڑا ہے۔

سروے میں 65 فیصد لوگوں نے تجویز دی کہ گیس کی فراہمی میں صنعتوں کو فوقیت دی جانی چاہیے تاکہ لوگوں کا روزگار بچا رہے اور اس کے لیے حکومت کو ٹرانسپورٹ کے شعبے کو گیس کی سپلائی محدود کرنی چاہیے۔