گوجرانوالا واقعہ: چھ افراد کے خلاف دہشت گردی اور قتل کا مقدمہ درج

  • شہزاد ملک
  • بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
پولیس اور عینی شاہدین کے مطابق اس علاقے میں احمدیوں کے سات، آٹھ گھر ہیں اور واقعے کے بعد یہ سب خاندان روپوش ہو گئے ہیں

،تصویر کا ذریعہAP

،تصویر کا کیپشنپولیس اور عینی شاہدین کے مطابق اس علاقے میں احمدیوں کے سات، آٹھ گھر ہیں اور واقعے کے بعد یہ سب خاندان روپوش ہو گئے ہیں

صوبہ پنجاب کے شہر گوجرانوالا میں اتوار کی رات احمدی فرقے سے تعلق رکھنے افراد کے پانچ مکانات کو نذر آتش کیے جانے کے واقعے کا مقدمہ دہشت گردی اور قتل کی دفعات کے تحت درج کر لیا گیا ہے جس میں چھ افراد کو نامز کیا گیا ہے۔

یہ مقدمہ گوجرانوالہ کے تھانے پیپلز کالونی میں چھ نامزد ملزمان کے علاوہ سینکڑوں نامعلوم افراد کے خلاف درج کیا گیا ہے۔

گوجرانوالہ پولیس کے ترجمان گلریز خان کے مطابق یہ مقدمہ محمد بوٹا کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔ اس مقدمے میں الزام عائد کیا گیا ہے کہ مقامی مذہبی رہمنا حاکم خان کی شرانگیز تقریر کے بعد متعدد افراد نے اُن کے گھر پر دھاوا بول دیا۔

مدعی مقدمہ کے بقول مشتعل افراد نے نہ صرف گھروں کو آگ لگائی بلکہ وہاں پر موجود قیمتی سامان بھی لوٹ کر لے گئے۔

یاد رہے کہ گوجرانوالا میں اتوار کی شب ایک مشتعل ہجوم نے فیس بک پر مبینہ طور پر ’توہین آمیز مواد کی اشاعت‘ کے بعد احمدی فرقے سے تعلق رکھنے والوں کے پانچ مکان نذرِ آتش کر دیے۔ اس کے نتیجے میں چار احمدی ہلاک اور چار شدید زخمی ہو گئے تھے۔

مقامی انتظامیہ کے مطابق ہلاک ہونے والے افراد کا پوسٹ مارٹم کر دیا گیا ہے جبکہ ان کی میتیوں کو لینے کے لیے کسی نے تا حال رابطہ نہیں کیا ہے۔

تھانہ پیپلز کالونی کے محرر کے مطابق دوسری پارٹی کی طرف سے بھی توہین مذہب کا مقدمہ درج کرنے سے متعلق درخواست موصول ہوئی ہے جس پر قانونی مشاورت جاری ہے۔

لندن سے احمدی کمیونٹی کی طرف سے جاری بیان میں اس واقعے کے دوران تین افراد کی ہلاکت اور ایک سات ماہ کی حاملہ خاتون کا حمل ضائع ہونے کی تصدیق کی ہے۔

گوجرانوالا میں پیپلز کالونی سرکل کے ڈی ایس پی کے مطابق ایک احمدی نوجوان کی جانب سے فیس بک پر مبینہ توہین آمیز مواد کی اشاعت کے بعد ایک ہجوم نے احتجاج کرنا شروع کیا جو بعد میں مشتعل ہو گیا اور اس نے احمدیوں کے مکانوں کو آگ لگانا شروع کر دی۔

عینی شاہدین نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ مشتعل ہجوم نے چار گھروں کو نذرِ آتش کر دیا جبکہ لوٹ مار بھی کی۔

انھوں نے مزید بتایا تھا کہ ’ہجوم پولیس کے کنٹرول میں نہیں آ رہا ہے اور پولیس معاملے کی حساسیت کی وجہ سے اس طرح ردِ عمل نہیں دکھا رہی ہے جس طرح اسے دکھانا چاہیے۔‘

علاقے کے مقامی ایم پی اے عمران خالد بٹ اور سی پی او وقاص نذیر موقع پر موجود تھے اور مقامی مذہبی رہنماؤں کی مدد سے مذاکرات کے ذریعے ہجوم کو منتشر کرنے کی کوششیں کی۔

پولیس اور عینی شاہدین کے مطابق اس علاقے میں احمدیوں کے سات، آٹھ گھر ہیں اور واقعے کے بعد یہ سب خاندان روپوش ہو گئے ہیں۔

ہلاک ہونے والوں میں ایک 55 سال سے زیادہ عمر کی خاتون بشیراں، ایک کم سن بچی کائنات اور ایک 7 سالہ بچی حرا شامل ہیں جبکہ ایک حاملہ خاتون کا حمل ضائع ہوا۔

مقامی پولیس کا کہنا ہے کہ علاقے میں اب حالات قابو میں ہیں اور اس علاقے کو نوگو ایریا نہیں بنایا گیا۔

تاہم پولیس کا کہنا ہے کہ کسی بھی ممکنہ واقعے سے نمٹنے کے لیے قریبی شہروں سیالکوٹ، گجرات اور حافظ آباد سے بھی پولیس کی نفری طلب کر لی گئی ہے اور اُنھیں مختلف جگہوں پر تعینات کردیا گیا ہے۔

اس کے علاوہ ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر گوجرانوالہ میں بھی پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے جہاں پر اس واقعے میں زحمی ہونے والے افراد زیر علاج ہیں۔

پولیس کے مطابق جب مبینہ توہین آمیز تصویر شائع ہوئی تو اہلِ محلہ احمدیوں کے گھر گئے مگر پولیس کے مطابق اس دوران صورتحال سلجھنے کی بجائے مزید خراب ہو گئی جس دوران پولیس کے مطابق فائرنگ ہوئی جس سے ہجوم میں شامل ایک بچہ زخمی ہو گیا۔

وفاقی وزیرِ تجارت خرم دستگیر خان نے ٹوئٹر میں لکھا کہ ’پولیس حکام کو عرفات کالونی میں اقلیتی گھروں پر حملے سے نمٹنے کے لیے روانہ کیا گیا ہے جو کہ میرے حلقے کے بالکل باہر ہے صورتحال قابو میں لائی جا رہی ہے۔‘

اس کے کچھ دیر بعد انھوں نے ایک اور ٹویٹ میں لکھا کہ ’پولیس کی بھاری نفری موجود ہے اور لوٹ مار پر قابو پا لیا گیا ہے آگ بجھانے کا عمل جاری ہے۔‘