ایران کا رہبرِ اعلیٰ کون ہو گا؟

ایران کے سپریم رہنما کو منتخب کرنے والے ادارے کے سربراہ رضا مہدوی کنی پانچ ماہ کوما میں رہنے کے بعد انتقال کر گئے۔

رضا مہدوی کنی کو ایران کی سیاست میں اہم مقام حاصل تھا اور ان کے انتقال کے بعد ملک میں غیر یقینی صورتِ حال پیدا ہو گئی ہے۔

رضا مہدوی کنی کی موت ایران کے 75 سالہ رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کی خراب صحت کے چند ماہ بعد ہوئی ہے۔

ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کا کچھ عرصہ قبل پراسٹیٹ کا آپریشن ہوا تھا اور سرکاری تصاویر میں انھیں ایک ہسپتال کے بستر پر لیٹے دکھایا گیا ہے۔

رضا مہدوی کنی کے انتقال اور آیت اللہ علی خامنہ ای کی علالت کے بعد ایران میں یہ بحث جاری ہے کہ ملک کا آئندہ رہبرِ اعلیٰ کون ہو گا اور اس کا انتخاب کیسے کیا جائے گا۔

ایران میں رہبرِ اعلیٰ کو ملک کا سب سے زیادہ طاقتور شخص سمجھا جاتا ہے، اور رہبرِ اعلیٰ ملک کی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف بھی ہیں۔

وہ ملک کی عدلیہ کے سربراہان، سرکاری براڈ کاسٹر کے علاوہ شورائے نگہبان (گارڈین کونسل) کے ارکان کو بھی منتخب کرتے ہیں۔

ایران کے رہبرِ اعلیٰ نے چند واقعات میں ملک کی پارلیمان کو قانون منظور نہ کرنے کا حکم جاری کیا۔

اس کے علاوہ انھوں نے ریاست کے مخالفین اور حزبِ مخالف کے رہنماؤں کی نظر بندی کے احکامات بھی جاری کیے۔

ایران میں اہم وزرا کو منتخب کرنے میں رہبرِ اعلیٰ کی منظوری شامل ہوتی ہے۔

ملک کی خارجہ پالیسی کے ساتھ ساتھ جوہری پروگرام میں ان کی رائے کو بھی بہت اہمیت دی جاتی ہے۔

ایران میں اس وقت تک کوئی سیاسی تبدیلی نہیں ہو سکتی جب تک رہبرِ اعلیٰ کی جانب سے گرین سگنل نہ مل جائے۔

آیت اللہ علی خامنہ ای کے پیش رو کو کیسے منتخب کیا جائے گا؟۔

ایران کے پہلے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ روح اللہ خمینی تھے۔سنہ 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد جب وہ رہبرِ اعلیٰ بنے تو اس وقت ان کی عمر 77 سال تھی۔

چند سال بعد جب آیت اللہ روح اللہ بیمار ہوئے تو ایران میں نئے رہبرِ اعلیٰ کو منتخب کرنے کا طریقہ بنایا گیا۔

رہبرِ اعلیٰ کو منتحب کرنے کے لیے ماہرین کی ایک اسمبلی بنائی گئی جو 82 منتخب علما کی کونسل پر مشتمل تھی۔

اس کونسل کو ملک کے رہبرِ اعلیٰ کو منتخب کرنے، ان کے کام کی نگرانی اور یہاں تک کہ انھیں نااہل کرنے کا اختیار دیا گیا۔

سنہ 1989 میں جب آیت اللہ روح اللہ خمینی کا انتقال ہوا تو کونسل نے آیت اللہ خامنہ ای کو منتخب کیا جو اس وقت ملک کے صدر کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے۔

اگرچہ آیت اللہ نے منتخب ہونے کے بعد کہا تھا کہ ملک کا رہبرِ اعلیٰ ہر صورت میں گرینڈ آیت اللہ ہونا چاہیے تاہم اس میں علما کے انتخاب کا معاملہ نہیں تھا جس کے لیے قانون کو تبدیل کرنا پڑا۔

ایران کے لوگوں کو براہِ راست ملک کا رہبرِ اعلیٰ منتخب کرنے کی اجازت دینے کی ایک شق کو آئین سے نکال دیا گیا۔

اس عمل سے یہ واضح کر دیا گیا کہ ایک نئے رہنما کے انتخاب کے عمل کو قانون کی جانب سے قائم کیا جاتا ہے تاہم عملی طور پر طاقتور لابی اس کی تشریح اور اپنی خواہش کے مطابق قانون کو تبدیل کر سکتی ہے۔

کیا نیا رہبرِ اعلیٰ اتنا ہی طاقتور ہو گا؟

ایران کا مستقبل بہت مختلف ہو سکتا ہے جس کا دار و مدار اس بات پر ہے کہ اسمبلی میں نئے رہنما کو منتخب کرنے میں کس گروپ کا پلڑا بھاری ہوتا ہے۔

ایران میں اس وقت دو گروپ ہیں، قدامت اور اعتدال پسند۔

ایران کی پارلیمان میں موجود قدامت پسندوں کو اکثریت حاصل ہے اور وہ آیت اللہ خامنہ ای کی حمایت کرتے ہیں۔

قدامت پسندوں کے مطابق اسلامی ریاست کے رہنما زمین پر خدا کے نمائندے ہیں اور ان کی فرماں برداری ہر صورت میں لازم ہے۔

اعتدال پسندوں کے مطابق رہبرِ اعلیٰ کا ملک میں کلیدی کردار ہوتا ہے۔

کچھ اعتدال پسند ارکان نے حالیہ قیادت کے ماڈل میں تبدیلی کا مطالبہ کیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ آیت اللہ خامنہ ای کے جانشین تاحیات کی بجائے ایک مقررہ مدت تک کام کریں۔

تاہم آیت اللہ خامنہ ای نے رہبرِ اعلیٰ کی حیثیت سے ایسی تمام اصلاحات کو مسترد کر دیا ہے۔