’چابہار سے گوادر کی بندرگاہ متاثر ہو گی‘

  • محمد وزیری
  • بی بی سی فارسی ، لندن
بھارت ایرانی تیل کا ایک بڑا خریدار رہا ہے

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشن

بھارت ایرانی تیل کا ایک بڑا خریدار رہا ہے

بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی کے ایران کے دو روزہ دورے کے پہلے دن دونوں ممالک نے مختلف شعبوں میں 12 معاہدے کیے ہیں جن میں خطے میں کے لیے سیاسی طور پر سب سے اہم چابہار کی بندرگاہ کی تعمیر کا منصوبہ ہے۔

ایران اور بھارت کے درمیان تعلقات بالخصوص معیشت میں حالیہ برسوں میں زیادہ گرمجوشی نہیں پائی جاتی تھی اور اس کی خاص وجہ ایران پر امریکی پابندیوں کے دباؤ کی وجہ سے یہاں غیر ملکی سرمایہ کاری میں ہونے والی کمی تھی۔

تاہم بھارتی وزیراعظم نریندر مودی ایک ایسے وقت ایران کے دورے پر پہنچے ہیں جب ایران سے غیر معمولی پابندیاں ہٹائی جا چکی ہیں اور وہاں غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے ایک نیا ماحول بن چکا ہے اور اس منظر میں ایرانی تیل کا پرانا اور بڑا خریدار بھارت داخل ہوا ہے۔

ایران بھارت کے تعلقات کو دونوں کے امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات کے سیاق و سباق کے تناظر میں دیکھنا چاہیے۔

پاکستان کا روایتی حریف بھارت امریکہ کے قریب ہو رہا ہے جبکہ ایران کے امریکہ کے ساتھ براہ راست تعلقات نہیں ہیں اور اس کی پاکستان کے ساتھ سرحد ملتی ہے اور اس سے اچھے تعلقات ہیں۔ اس تناظر میں افغانستان اور چین کے ایران اور بھارت سے تعلقات اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔

سال 2008 میں بھارت اور امریکہ کے درمیان سویلین جوہری معاہدے پر دستخط کے بعد دونوں ممالک قریب آئے ہیں اور اس کے اچھے خاصے اثرات دہلی اور تہران کے تعلقات پر مرتب ہوئے۔

حقیقت میں یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ سنہ 2009 میں بھارت نے امریکہ کے براہ راست دباؤ کے نتیجے میں جوہری توانائی کے عالمی ادارے میں ایران کے خلاف ووٹ دیا۔

ایران کو بھارت کے اس موقف کی توقع نہیں تھی اگرچہ بھارتی حکام اس رائے پر قائم رہے کہ ان کا اقدام اچھی نیت سے اٹھایا گیا تھا۔

ایران اور مغربی ممالک جوہری سرگرمیوں پر اختلافات کو حل کر چکے ہیں اور اس کے نتیجے میں ایران پر سے پابندیاں ختم کی گئی ہیں۔

امریکہ بحیرۂ ہند میں بھارت کا زیادہ سے زیادہ کردار کا خواہاں ہے خاص کر چین کے مقابلے میں اور اس کے ساتھ افغانستان سمیت جنوبی اور مغربی ایشیا میں۔

حقیقت میں یہ عنصر بھارت کے پاکستان اور چین کے ساتھ تعلقات اور ان ممالک کے درمیان باہمی تعلقات اور بھارت کے خلاف تعاون میں قابل ذکر کردار ادا کر رہا ہے۔

اس فریم ورک میں بھارت کی کوشش ہے کہ وہ پاکستان اور چین کو پیچھے دھکیل دے اور کسی حد تک دونوں کے تعلقات بلخصوص معاشی شعبے میں کمزور یا بے اثر کر دے۔ وزیراعظم مودی کے دورہ ایران اور اس موقعے پر بھاری سرمایہ کاری اور تعاون کا اعلان اور افغانستان کے تناظر میں ایرانی بندر گاہ چابہار اہم بن گئی ہے۔

چابہار کی بندرگاہ پاکستان کی گوادر کی بندرگاہ سے تقریباً سو میل مغرب میں واقع ہے اور یہ بھارت کو افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے لیے سمندروں کے ذریعے تجارت کرنے کا متبادل راستہ فراہم کر سکتی ہے۔

چا بہار بندر گاہ  کی تعمیر سے پاکستانی بندرگاہ گوادر پر بھی اثرات مرتب ہوں گے

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشن

چا بہار بندر گاہ کی تعمیر سے پاکستانی بندرگاہ گوادر پر بھی اثرات مرتب ہوں گے

بحیرہ اومان کے دھانے پر موجود چابہار بندرگاہ پاکستان میں چین کے تعاون سے تیار کی جانے والے گوادر بندرگاہ سے زیادہ دور نہیں ہے۔

بھارت کو امید ہے کہ چابہار کی صورت میں اسے پاکستان کو بائی پاس کرتے ہوئے افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی حاصل ہو جائے گا۔

بھارت کے وزیر ٹرانسپورٹ نے اسے شمال جنوب کی راہداری کہتے ہوئے کہا کہ اس راستے سے بھارت کو روس اور اس کے ساتھ یورپ تک رسائی حاصل ہو جائے گی۔

افغانستان کے پاکستان کے ساتھ تعلقات کئی وجوہات کی بنا پر مسائل سے دوچار ہیں اور اس کے پاکستان کے ساحلی شہر کراچی اور یہاں تک کہ گوادر سے ٹرانزٹ روٹ کے مقابلے میں چا بہار کا راستہ زیادہ محفوظ اور سستا ثابت ہو گا۔

چا بہار بندر گاہ کی تعمیر سے پاکستانی بندرگاہ گوادر پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔

چابہار کی بندرگاہ پاکستان کی گوادر کی بندرگاہ سے تقریباً سو میل مغرب میں واقع ہے

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشن

چابہار کی بندرگاہ پاکستان کی گوادر کی بندرگاہ سے تقریباً سو میل مغرب میں واقع ہے

ایران کو بھی اس وقت بیرونی سرمایہ کاری کی ضرورت ہے اور بھارتی سرمایہ کاری اور تعاون کا بہت فائدہ ہو گا جس سے جوان افراد کے لیے ملازمتوں کے موقعے پیدا ہو گے۔

معاشی فوائد سے ہٹ کر وزیراعظم مودی کے اس دورے کے سیاسی اثرات بھی ہوں گے۔

بھارت کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد 15 کروڑ ہے جس میں لاکھوں شیعہ مسلمان ہیں اور یہاں سب مسلمان برابر ہیں اور بعض اعتبار سے ان کی تعداد کئی مسلمان ممالک سے بھی زیادہ ہے۔

قدرتی طور پر مسلمان شہری کئی مسائل پر اسلامی دنیا کی جانب دیکھتے ہیں اور اس میں بھارت کے مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات کے ساتھ صحت مند اور صحت مندانہ تعلقات کو قائم رکھنا ضروری ہے۔

بھارتی وزیراعظم مودی اس سے پہلے سعودی عرب کا دورہ کر چکے ہیں اور اب اس میں توازن لانے کے لیے مودی کے شیعہ ایران کے دورے سے شیعہ آبادی کو ایران سے مضبوط تعلقات کے ذریعے ساتھ لے کر چلنا ہے۔