نیدرلینڈز میں ’حلال‘ مکانات کا تنازع

آخری وقت اشاعت:  بدھ 12 دسمبر 2012 ,‭ 10:10 GMT 15:10 PST
نیدرلینڈ کے حلال گھر

ان اپارٹمنٹس میں مسلمانوں کی ضروریات کے حساب سے تبدیلیاں کرنے سے پہلے مسلم تنظیموں اور مسلم شہریوں سے صلاح مشورہ کیا گیا تھا

نیدرلینڈز کے دارالحکومت ایمسٹرڈم میں بعض مخصوص رہائشی اپارٹمنٹس میں مسلمانوں کی ضروریات کے مطابق تبدیلیاں کرنے کے معاملے پر سیاسی تنازع کھڑا ہوگیا ہے۔

ایمسٹرڈم میں ان ایک سو اسی اپارٹمنٹس کی مخصوص مرمت کی اجازت دی گئی ہے جن میں مسلمان شہری رہائش پذیر ہیں۔ ان تبدیلیوں میں نماز سے پہلے وضو کے لیے الگ سے نئے نل اور گھروں کے اندر سلائیڈنگ دروازے لگائے جا رہے ہیں تاکہ مرد اور خواتین ضرورت پڑنے پر ایک دوسرے سے پردہ کر سکیں۔

نیدرلینڈ میں بعض دائیں بازوں کی جماعتوں کے سیاستدانوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کی سہولیات کا مطالبہ کرنے والے لوگوں کو مکہ چلا جانا چاہیے۔

ایمسٹرڈم کے مغرب میں بو اور لومبو علاقوں میں واقع یہ اپارٹمنٹس باہر سے کسی بھی دوسرے اپارٹمنٹس کی طرح ہی نظر آتے ہیں۔

آئنور الڈرم اپنے گھر میں کی گئی تبدیلیاں دکھاتی ہیں۔ انہوں نے اپنے غسل خانے میں وہ نل دکھایا جو تھوڑا نیچا لگایا گیا ہے۔ لیکن اگر اس نل میں تھوڑی سی تبدیلی کی جائے تو ان نلوں جیسا ہی ہے جو کسی میں گھر میں ہوگا۔

الڈرم نے اپنا کچن دکھایا جس میں سلائیڈنگ دروازے لگے ہیں۔ وہ کہتی ہیں ’جب میں کچن بند رکھنا چاہتی ہوں تو یہ دروازہ بہت کام آتا ہے۔ کبھی کبھی پرائیویسی کے لیے تو کبھی مردوں سے پردہ کرنے کے لیے یہ دروازہ بہت کام آتا ہے‘۔

ہاؤسنگ ایسوسی ایشن ایگن ہارڈ سے تعلق رکھنے والے وم دی وارڈ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ یہ تبدیلیاں مذہبی وجوہات سے زیادہ عام ضروریات کے مطابق کی جا رہی ہیں۔

ان اپارٹمنٹس میں موجودہ تبدیلیوں کی اجازت دیے جانے سے پہلے مقامی مسلم تنظیموں اور رہائشیوں سے صلاح مشورہ کیا گیا تھا۔

وم دی وارڈ کا کہنا ہے کہ یہ اپارٹمنٹس صرف مسلمانوں کے لیے مخصوص نہیں ہیں بلکہ جو بھی ضرورت مند ان اپارٹمنٹس میں رہنے کے لیے درخواست دیتا ہے یہ اسے ہی الاٹ کر دیے جاتے ہیں۔

لیکن نیدرلینڈ سے بہت سے افراد کی رائے ہے کہ ان کا ملک تاریخی طور پر ایک لبرل سیکولر ملک رہا ہے جہاں مرد اور خواتین کو ایک نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ گھروں کے اندر سلائیڈنگ دروازے لگانے سے جنس کی بنیاد پر تفریق کو فروغ مل سکتی ہے۔

گیرٹ وائلڈرس

گیرٹ وائلڈرس ایک لمبے وقت سے ڈچ سوسائٹی میں مسلمانوں کے اسرو رسوخ کے خلاف مہم چلارہے ہیں

نیدرلینڈ کے متنازع مسلم مخالف سیاستدان گیرٹ وائلڈرز نے ڈچ اہلکاروں پر الزام لگایا ہے کہ وہ جنس کی بنیاد پر تفریق کو فروغ دے رہے ہیں۔ انہوں نے پیشن گوئی کی ہے کہ آنے والے دنوں میں ڈچ شہریوں میں محاز آرائی شروع ہوجائے گی۔

حال ہی میں ہوئے پارلیمانی انتخابات میں گیرٹ وائلڈرز کی جماعت کا کارکردگی خراب رہی ہے اور اب وہ اس مسئلے پر متنازع بیان دے کر دائیں بازو کے حامیوں کا ساتھ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اپنی اس کوشش میں وہ کافی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ حال ہی میں کرائی گئی رائے شماری کے نتیجے بتاتے ہیں اگر نیدرلینڈز میں کل انتخابات ہو جائیں تو وائلڈرز کی فریڈم پارٹی ( پی وی وی) انتخابات جیت سکتی ہے۔

پی وی وی کے حمایتی ایک پراپرٹی ڈویلپر نے حلال گھروں کے بارے میں کہا ’یہ مضحکہ خیز بات ہے۔ میں تو اسے مذاق سمجھ رہا تھا‘۔

ان کا مزید کہنا تھا ’قرآن میں کہی جانے والی باتیں تفریق کو فروغ دینے والی باتیں ہیں۔ یہ باتیں ہمیں پیچھے کی طرف لے جارہی ہیں۔ یہ لوگ سماجی طور پر الگ لوگ ہیں۔ یہ پڑھے لکھے نہیں ہیں اور اب قدامت پسندی کو ہماری ثفافت میں شامل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جب کہ ان کو ہمارے جدید نظریے اور آزادانہ خیال کو اپنانا چاہیے‘۔

’حلال‘ گھروں کے بارے میں سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر بھی بحث جاری ہے۔ ٹوئٹر پر ایک شخص نے لکھا ہے حلال ہومز میں مرمت کا کام عام عوام کے ٹیکس کی رقم سے کیا جا رہا ہے۔ سرکاری خزانے کا استعمال تفریق کی فروغ کے لیے نہیں ہونا چاہیے۔

اس بارے میں ہاؤسنگ ایسوسی ایشن کا کہنا ہے کہ سرکاری خزانہ ’ہمیں گارنٹی کے طور پر ملتا ہے لیکن اب تک اسے سبسڈی کے طور پر دیا جا رہا ہے‘۔ ایسوسی ایشن کا مزید کہنا تھا کہ ان گھروں میں مرمت ضرورت کے حساب سے کی جا رہی ہے تاکہ انہیں کرائے پر دینے کے لائق بنایا جا سکے۔

اسی بارے میں

متعلقہ عنوانات

BBC © 2014 بی بی سی دیگر سائٹوں پر شائع شدہ مواد کی ذمہ دار نہیں ہے

اس صفحہ کو بہتیرن طور پر دیکھنے کے لیے ایک نئے، اپ ٹو ڈیٹ براؤزر کا استعمال کیجیے جس میں سی ایس ایس یعنی سٹائل شیٹس کی سہولت موجود ہو۔ ویسے تو آپ اس صحفہ کو اپنے پرانے براؤزر میں بھی دیکھ سکتے ہیں مگر آپ گرافِکس کا پورا لطف نہیں اٹھا پائیں گے۔ اگر ممکن ہو تو، برائے مہربانی اپنے براؤزر کو اپ گریڈ کرنے یا سی ایس ایس استعمال کرنے کے بارے میں غور کریں۔