عمران خان اور نواز شریف کے ملتے جلتے بیانات: ’ایسے وزیراعظم کے ہوتے ہوئے دشمنوں کی کیا ضرورت ہے‘

عمران خان، نواز شریف

،تصویر کا ذریعہAFP

،تصویر کا کیپشننواز شریف اور عمران خان نے مختلف صورتحال میں ایک ہی قسم کے بیانات دیے، جن پر ردِ عمل بھی مختلف آیا

تقریباً ایک برس قبل پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف نے اپنے ایک انٹرویو میں ممبئی حملوں میں پاکستان سے تعلق رکھنے والے شدت پسند گروہوں کے ملوث ہونے کی بات کیا کی کہ ان پر غداری اور ’مودی کا یار‘ ہونے کے علاوہ کئی ایسے سنگین الزامات لگنے لگے۔

اس واقعے کے ایک برس بعد پاکستان کے وزیراعظم عمران خان چند دن قبل جب ایک سرکاری دورے پر ایران گئے تو ایسا ہی ایک بیان ان کی جانب سے بھی سامنے آیا۔

تاہم اس مرتبہ ردِعمل بہت مختلف تھا اور پاکستان میں دو صفِ اول کے سیاست دانوں کے ایک جیسے بیانات پر آنے والا مختلف ردِ عمل اس وقت ملک میں بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔

اس بارے میں مزید پڑھیے

پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے ایرانی صدر حسن روحانی کے ساتھ بیٹھ کر ایران میں دہشت گردی کے حوالے سے کہا ’کچھ دن قبل، تین چار دن قبل ہمارے 14 سکیورٹی اہلکاروں کو بلوچستان میں دہشت گردوں نے ہلاک کیا۔ اور میں جانتا ہوں کہ ایران دہشت گردی کا شکار رہا ہے جو پاکستان سے چلنے والے گروہوں سے ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ 'ہمیں یقین ہے کہ دونوں ملکوں کی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں ہونے دی جائے گی۔ ہم اپنی سرزمین سے آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچنے دیں گے'۔

عمران خان کے اس بیان پر پاکستان میں مختلف اطراف سے شدید تنقید کی جا رہی ہے اور حسب معمول ان کے ماضی کے بیانات کی روشنی میں عمران خان پر منافقت، غداری اور وطن دشمنی جیسے سنگین الزامات لگائے جا رہے ہیں۔

اس بارے میں جہاں حکمران جماعت کی جانب سے زبان پھسلنے کی باتیں کی جا رہی ہیں، وہیں انسانی حقوق کی وفاقی وزیر شیریں مزاری کی جانب سے قومی اسمبلی میں بیان کے بارے میں ان پر غلط بیانی اور بعض کے مطابق گمراہ کرنے کا الزام لگایا جا رہے ہے۔

شیریں مزاری نے قومی اسمبلی میں بیان دیتے ہوئے کہا 'حقائق کو مسخ کیا گیا۔ وزیراعظم کا آدھا جملہ انہوں نے بتایا کہ ایران ماضی میں دہشت گردی کا شکار ہوا وغیرہ۔ اگلا جملے کا حصہ تھا، اور پاکستان نے ابھی اورمارہ میں جو لوگ ہمارے لوگ مارے گئے ہیں۔ انہوں ایران سے آئے ہیں تو بہتر ہے کہ بات چیت کریں۔ پورا جملہ پڑھنا چاہیے آپ کو۔'

اب وزیراعظم عمران خان کا پورا جملہ ہم نے اوپر حرف بحرف لکھا ہے جس میں ایران سے اورمارہ کو جوڑنے کی کوئی بات نہیں۔

نہ ہی اس میں پاکستان میں چلنے والے گروہوں کے بعد اورماڑہ کا ذکر ہے بلکہ اورمارہ میں دہشت گردی کا ذکر اس جملے کے شروع میں کیا گیا۔

تو اس پر شیریں مزاری سے سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا انہوں نے پورا جملہ سنا یا پڑھا؟

عمران خان کے اس بیان پر عمومی ردِ عمل اتنا سنگین نہیں ہے جتنا نواز شریف کے بیان پر آیا تھا۔ جب ٹی وی اینکرز، صحافی اور عوام الناس نے بھی انہیں 'غدار اور ملک دشمن' قرار دیا تھا۔

اس بار اس ساری بحث میں رات گئے تیزی اس وقت آئی جب مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز شریف نے گذشتہ رات نہ صرف ٹویٹ کی بلکہ اپنے آپ پر تنقید کرنے والے چند صحافیوں کی ٹویٹس کے جوابات بھی دیے۔

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 1
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

Twitter پوسٹ کا اختتام, 1

مریم نواز نے اپنی ٹویٹ میں لکھا 'اپنے ملک کو غیر ملکی سرزمین پر اور غیر ملکی رہنماؤں کے ساتھ بیٹھ کر برا بھلا کہنے اور بدنام کرنے کرنے کی کوئی اور ایسی مثال سفارتی اور قومی تاریخ میں نہیں ہے۔ تصور کریں کہ ایرانی قیادت کیا سوچ رہی ہو گی۔'

مریم نواز کی اس ٹویٹ پر مختلف لوگوں نے تنقید کی جن میں سے ایک صحافی مبشر زیدی تھے جنہوں نے لکھا 'آپ بھی وہی کریں گی جو میاں نواز شریف کے ساتھ ہوا تو کیا فرق رہ جائے گا۔'

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 2
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

Twitter پوسٹ کا اختتام, 2

مریم نے اس پر مبشر زیدی کو جواب دیا کہ 'آپ ایک بات جو بند دروازں کے پیچھے، اپنا جائزہ لینے اور پالیسی بنانے والے اجلاسوں میں بحث کے دوران کی جائے کو بین الاقوامی سطح پر اپنے ملک کو ملوث کرنے برابر نہیں کر سکتے۔ اس میں فرق ہے مبشر بھائی۔ بہت بڑا فرق۔ کون سی بات کہاں کرنی ہے اہم ہے۔'

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 3
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

Twitter پوسٹ کا اختتام, 3

مریم نے مزید لکھا کہ 'عالمی سطح پر آپ اپنے ملک کے ترجمان، دفاع کرنے والے اور وکیل ہوتے ہیں۔ آپ کے الفاظ کے بہت سنجیدہ نتائج ہو سکتے ہیں۔ بات وہاں کریں جہاں کرنی چاہیے تاکہ اس سے چیزیں درست کی جا سکیں۔ اگر کسی چیز کو تسلیم کرنے اور درست کرنے کی ضرورت ہے وہ معذرت خواہانہ ذہنیت ہے جسے پروان چڑھایا جا رہا ہے۔'

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 4
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

Twitter پوسٹ کا اختتام, 4

دوسری جانب سابق وزیرخارجہ خواجہ آصف نے عمران خان کی ماضی میں ان کے ایک بیان پر کی گئی تنقیدی ٹویٹ پر لکھا 'آج اسی وزیر خارجہ کی زبان بول رہے ہیں جسے آپ نے ان الفاظ پہ ملک دشمن کہا تھا۔آپ کا اس وقت کا کہا اور آج کا فرمانا حاضر ہے۔ سیاست میں موقع پرستوں، منافق بنیادی باتیں چھوڑتے ہیں عمران خان کا ہر بیان ان کے ان اصولوں کو تباہ کرتا ہے جن کا وہ پرچار کرتے رہے ہیں۔'

یاد رہے کہ عمران خان نے خواجہ آصف کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ 'خواجہ آصف کی جانب سے شدت پسند گروہوں کی سرپرستی کا بیان ایک وزیرخارجہ کی جانب سے آنا پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچاتا ہے۔ ایسے وزیرخارجہ کے ہوتے ہوئے کسے دشمنوں کی ضرورت ہے؟'

تو ٹوئٹر پر ایک صارف نے سوال کیا کہ 'کیا وزیراعظم کے اپنے الفاظ کا اطلاق ان پر ہو گا کہ ایسے وزیراعظم کے ہوتے ہوئے کسے دشمنوں کی کیا ضرورت ہے۔'

یہ بھی پڑھیے

سینیئر صحافی قطرینہ حسین کے خیال میں اس ردِ عمل میں 'ٹرگر ورڈ انڈیا' ہے اور 'اس کی بنیادی وجہ نواز شریف کا انڈیا کے بارے میں بیان تھا اور پاکستان میں انڈیا دشمنی کی نظر سے ہر چیز کو دیکھا جاتا ہے۔ ایران کبھی بھی اس طرح سے پاکستان میں نہیں دیکھا گیا۔ ہماری ہاں ہمیشہ سے مشرقی سرحد متنازع رہی ہے۔'

قطرینہ نے مزید کہا کہ 'ہماری تاریخ ایران کے ساتھ ایک طویل تاریخ ہے جس میں اتار چڑھاؤ رہا ہے۔ ایران کے ساتھ تعلقات میں تنازع فرقہ وارنہ رنگ میں رہا ہے اور اس میں دہشت گردی ایک نئی جہت ہے۔'

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اس میں لاڈلے والا تصور کارفرما ہے تو انہوں نے کہا 'ایسا ممکن نہیں ہے کہ ایک بات کی بنیاد پر ایسا ردِ عمل ہو۔ اس کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔ نواز شریف یہ بیان دینے سے قبل ہی ہی بیڈ بُکس میں تھے۔ جبکہ عمران خان کا ابھی بھی ہنی مون چل رہا ہے اور ہماری اسٹیبلشمنٹ اور عوام سب ہی چاہتے ہیں کہ انہیں موقعہ ملنا چاہیے۔ وہ عمران کو ان کی غلطیوں کو نظرانداز کرنا چاہتے ہیں جیسا کہ یہ بیان ہے تو عمران کے پاس غلطیوں کی گنجائش ہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ کم ہوتی جائے گی۔'