کورونا وائرس: پاکستان، زمبابوے اور میکسیکو جیسے ممالک کو کووڈ 19 کی ویکسین کا انتظار کرنا پڑ سکتا ہے

  • اسٹیفی ہیگارٹی
  • بی بی سی ورلڈ سروس
A healthcare worker in Zimbabwe

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنچھ ممالک میں تو ویکسین دیے جانے کا عمل شروع ہو گیا ہے لیکن ابھی تک یہ نہیں معلوم کہ زمبابوے جیسے ممالک میں یہ ویکیسن کب پہنچے گی۔

کووڈ 19 کے خلاف سب سے پہلے ویکسین لگائے جانے والے لوگوں کی تصاویر نے پوری دنیا میں ہر ایک کو خوشی نہیں پہنچائی ہے۔ زمبابوے، میکسیکو اور پاکستان جیسے کچھ ممالک کے لیے ویکسین کے حصول کی جنگ طویل اور اذیت ناک ہو سکتی ہے۔

برطانیہ میں لوگوں کو ویکسین لگتے دیکھ کر، لوئیس چنگینڈو کو خوشی نہیں ملی، الٹا وہ پریشان تھیں۔ ہم میں سے بیشتر لوگوں کی طرح وہ بھی کورونا کے خلاف ویکسین لگنے اور زندگی کو معمول پر لانے کی منتظر ہیں۔ لیکن بہت سارے لوگوں کے برعکس انھیں اپنی زندگی میں کوئی امید نظر نہیں آرہی ہے۔

یہ واضح نہیں ہے کہ لوئیس کے اپنے ملک زمبابوے کو ویکسین کب ملے گی۔ وہ کہتی ہیں ’اب ہمیں صرف اس بات کا انتظار ہے کہ کیا ہمیں اپنی زندگی میں ہی ویکسین مل جائے گی یا نہیں۔ مجھے ڈر ہے کہ میں کورونا کا شکار ہو جاؤں گی اور مدد ملے بغیر مر جاؤں گی۔‘ یہ بات آپ کو ایک مبالغہ لگے لیکن اس سے پہلے بھی انھوں نے ایسا ہی کچھ ہوتے دیکھا ہے۔

یہ بھی پڑھیے:

لوئیس چنگینڈو ایچ آئی وی سے بچاؤ کے لیے کام کرتی ہیں اور زمبابوے کے دارالحکومت ہرارے میں 1990 کی دہائی کے آخر میں انھوں نے روزانہ ہزاروں افراد کو ایڈز سے مرتے دیکھا۔ ان اموات کو روکنے کے لیے دوائی دستیاب تھی- لیکن صرف ان لوگوں کے لیے جو اسے خریدنے کی استطاعت رکھتے تھے۔ 'بالآخر جب مراعات یافتہ افراد یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ اب غریب لوگوں کو بچانے کا وقت آگیا ہے، تب ہی ہمیں یہ ویکسین ملتی ہے۔'

چنگینڈو، پیپلز ویکسین الائنس نامی اس مہم کی رکن ہیں جس نے دولت مند ممالک، خاص طور پر امریکہ، برطانیہ، یورپی یونین کے ممالک اور کینیڈا کی ویکسین کا ذخیرہ جمع کرنے پر مذمت کی ہے۔

حکومتوں اور ویکسین کمپنیوں کے مابین ہونے والے سودوں پر نظر رکھنے والے ڈیوک یونیورسٹی کے محققین کے مطابق کچھ ممالک نے اپنی آبادیوں کی ضرورت سے زیادہ مقدار حاصل کرلی ہے۔ کینیڈا نے ویکسین کی اتنی خوراکیں حاصل کر لی ہیں کہ ان کی پوری آبادی کو پانچ بار ویکسین لگائی جا سکتی ہے۔

اس سے پہلے کہ ویکسین مؤثر ثابت ہو اور اسے استعمال کر کے وہ اپنے اپنے ممالک کی معیشت کو واپس اپنے پیروں پر کھڑا کر سکیں، ان ممالک نے ویکسین خریدنے میں خطرہ مول لیا ہے۔ چنگینڈو اور پیپلز ویکسین الائینس مہم کا خیال ہے کہ یہ عمل غیر منصفانہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ضرورت سے زیادہ ویکسین کو ان ممالک میں تقسیم کیا جانا چاہیے جہاں ان کی ضرورت ہے۔

Martha Delgado
BBC
I have seen countries in the Latin-American region that don't have enough money to buy vaccines right now.
Martha Delgado

اب تک 189 ممالک ’کوویکس اِنیشی ایٹو‘ پر دستخط کر چکے ہیں۔ ان ممالک نے صحت کے عالمی ادارے اور بین الاقوامی سطح پر ویکسین کی سپلائی کی حمایت کی ہے۔ اس کوشش کا مقصد دنیا بھر کو ایک عالمی بلاک کی صورت میں متحد کرنا ہے تا کہ دوا ساز کمپنیوں سے سودے طے کرنا آسان ہوں۔

ان ممالک میں سے 92 ایسے ہیں جو سارے کے سارے یا تو بہت کم آمدن یا کم آمدن والے ممالک ہیں۔ ان کے لیے ویکسین کی قیمت عطیات دینے والے ممالک ادا کریں گے۔ برطانیہ نے اس مقصد کے لیے بنائے جانے والے فنڈ میں پچاس کروڑ ڈالرز دینے کا اعلان کیا ہے۔ روس اور امریکہ ان چند ممالک میں شامل ہیں جو اس میں کوئی عطیہ نہیں دے رہے ہیں۔ باقی ممالک کوویکس کے ذریعے سے ویکسین خریدیں گے لیکن ممکن ہے کہ انھیں یہ اچھی قیمت پر دستیاب ہو جائے اگر انھوں نے اپنے لیے اچھی طرح سودے بازی کی۔

اب تک کوویکس نے تین کامیاب نتائج دینے والی تین ویکسینز حاصل کر لی ہیں۔ لیکن تا حال ویکسین کا یہ سودا دنیا کی صرف 20 فیصد آبادی کو فائدہ پہنچا سکے گا۔

نازک مہینے

میکسیکو اس سکیم کا ایک بڑا حامی ہے اور وہ ویکیسنز اسی کے ذریعے خریدے گا۔ لیکن میکیسکو کے لیے ویکیسن کا سودا طے کرنے والی اعلیٰ عہدیدار مارتھا ڈلگاڈو جانتی ہیں 20 فیصد آبادی کے لیے ویکسین کے حصول سے کووِڈ-19 وائرس سے متاثرہ افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد کو روکا نہیں جا سکے گا۔ وہ دوسرے ذرائع سے بھی ویکیسن حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اور اس کے حصول میں تاخیر کتنی زندگیوں کو موت کی جانب دھکیل سکتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ ’آنے والے مہینے بہت نازک ہیں۔‘

اکتوبر کی 13 تاریخ کو اُس نے جس وقت کہا تھا کہ یہ علامتی طور پر بہت اہم لمحہ ہے، اُس وقت اُس نے تین کمپنیوں سے اپنے ملک کے لیے براہِ راست سودے طے کیے تھے۔ انہوں نے اس وقت بہت زیادہ مشہور ہوجانے و الی ویکسین کا سودا فائزر سے طے کیا تھا، جس کا سب سے پہلے استعمال شروع ہو چکا ہے۔ جمعے کو میکسیکو نے اس ویکسین کے استعمال کی اجازت ہنگامی بنیادوں پر دے دی ہے۔ اور اسے لوگوں کو اسی مہینے سے دیا جانا شروع کردیا جائے گا۔

مِس ڈلگاڈو کہتی ہیں کہ ’میکسیکو کے پاس اتنی صلاحیت ہے کہ وہ خود یہ ویکسین خرید سکتا ہے۔ میں نے لاطینی امریکہ میں ایسے ممالک دیکھے ہیں جن کے پاس اتنے مالی وسائل نہیں ہیں کہ وہ ویکسین خرید سکیں اور نہ اس کی کوئی ضمانت ہے کہ انھیں اس ویکسین تک کوئی رسائی مل سکے گی۔‘ ایسے کئی ممالک کے لیے کوویکس ہی ایک واحد رستہ ہے۔

Dr Faisal Sultan
BBC
Everybody is going for a finite pie. The pie is fixed for now and everybody wants a slice of it.
Dr Faisal Sultan

وہ ویکسین جو آکسفورڈ یونیورسٹی میں آسٹرا زینیکا کے اشتراک کے ساتھ تیار کی جا رہی ہیں اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ ترقی پذیر ممالک کو فروخت کرتے ہوئے کوئی منافع حاصل نہیں کرے گی۔ کوویکس کی کوششوں کا یہ ایک اہم پہلو ہے۔ لیکن اس ویکسین کی برطانیہ میں استعمال کی تاحال توثیق نہیں کی گئی ہے۔ اور کسی بھی ایک دوا ساز کمپنی کی اتنی صلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ ساری دنیا کی پونے آٹھ ارب آبادی کے لیے یہ ویکسین چند مہینوں میں تیار کر سکے۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم کے مشیر برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان جو کہ ویکسین کے حصول کے مذاکرات میں شامل رہے ہیں، کہتے ہیں کہ ’میکسیکو کی طرح پاکستان کا معاملہ بھی ویکیسن تیار کرنے والی کمپنیوں سے مذاکرات کے دوران اُٹھایا گیا ہے۔‘

’ہر شخص اِس محدود سی روٹی میں اپنا حصہ مانگ رہا ہے۔ یہ روٹی فی الحال محدود ہے اور ہر شخص اس میں سے ایک نوالہ مانگ رہا ہے۔ اور ظاہر اس کے حصول کے دوران کچھ نہ کچھ دھکّم پیل تو ہوگی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ مذاکرات ٹھیک چل رہے ہیں لیکن ابھی تک ان کو کوئی بھی ویکسین حاصل کرنے میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ جب تک یہ پتا نہ چل جائے کہ کوئی ویکسین کتنی کارآمد ہے یا نہیں، پاکستان ویکسین کی ادائیگی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔

ڈاکٹر سلطان کہتے ہیں 'یہ ایک آسائش ہے۔ میرے خیال میں صرف مٹھی بھر ممالک ہی ہیں جو نتائج جانے بغیر یہ کام کر سکتے ہیں۔ اگر ہمیں صحیح ویکسیکن مل جائے تو ٹھیک ہے۔ لیکن ہم آنکھیں بند کرکے جوا نہیں کھیل سکتے۔'

A volunteer in Mexico receives an injection

،تصویر کا ذریعہReuters

،تصویر کا کیپشنمیکسیکو میں ایک رضا کار چینی ویکسین کے آزمائشی ویکسین کے انجیکشن لے رہا ہے۔

پاکستان کے بڑی بڑی یونیورسٹیوں نے چینی کمپنی ’کان سینو بائیو‘ کی ویکسین کے آزمائشی انجیکشن میں کافی مدد کی ہے۔ اور شاید اس کی وجہ سے انھیں یہ یہ ویکسین حاصل کرنے میں بھی مدد ملے۔ اور اس کے سودے میں صرف رقم ہی اہم نہیں ہے۔ مِس ڈلگاڈو یہ تسلیم کرتی ہیں کہ ویکسین کا سودا کرنے میں میکسیکو کے اچھے سفارتی تعلقات کا بھی اہم کردار تھا۔

ڈاکٹر سلطان کہتے ہیں کہ ’ایسی کمپنیاں ان ملکوں کے اندر موجود ہیں۔ اور جب ایسے ممالک کی بات کر رہے ہیں تو ظاہر ہے کہ اس میں عالمی سیاست کی دھڑے بندیاں اور سیاست اور اس طرح کے دیگر عوامل کار فرما ہوتے ہیں۔ لیکن اس وقت ہم جو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں وہ یہ کہ ہم عالمی سیاست کی دھڑے بندیوں سے بالاتر ہو کر کام کریں، اور معلوم نہیں کہ ایسا ہو سکے گا یا نہیں۔‘

لوئیس چنگینڈو اور پیپلز الائینس سفارت کاری یا کوویکس سے بڑھ کر انقلابی اقدامات لینے کی بات کر رہے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ویکسین بنانے والی کمپنیاں اپنی ویکسین بنانے کے فارمولے یعنی ان کے حقوقِ دانش (انٹیلیکچوئل پراپرٹی رائٹس) دوسروں کو استعمال کرنے کی اجازت دیں تاکہ سب کے لیے ایک جیسی یعنی جینرِک ویکسین تیار کی جا سکے۔

عالمی ادارہ صحت نے کووِڈ ویکسین کے معاملے میں انٹیلیکچوئل پراپرٹی رائٹس پر اپنے فیصلے کے اعلان کو ملتوی کردیا ہے۔ اس تجویز کو اس ادارے کے کئی ارکان کی حمایت حاصل ہو چکی ہے لیکن مغربی طاقتیں اس کی مخالفت کر رہی ہیں۔ اب تک دنیا کے اکثر ممالک کے لیے ویکیسن کا حصول ایک انتظار کا کھیل ہے۔

’مِس چنگینڈو کہتی ہیں کہ ’کووِڈ کی وجہ سے لوگ موت کا شکار ہو رہے ہیں، لیکن کچھ ممالک میں لوگ ایک معمول کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔‘