افغانستان کی زمین کی تہہ میں ایسی کیا چیز ہے جو زیادہ زلزلوں کی وجہ بنتی ہے؟

افغانستان زلزلہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

افغانستان کے مشرقی حصے میں حالیہ زلزلے کے نیتجے میں کم از کم ایک ہزار افراد ہلاک جبکہ تین ہزار سے زائد لوگ زخمی ہوئے ہیں۔

اس زلزلے کے دوران سینکڑوں مکانات تباہ ہوئے جس میں افغانستان کا پکتیکا صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہوا جو پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے۔

حالیہ زلزلہ گذشتہ دو دہائیوں کے دوران افغانستان میں سب سے تباہ کن ثابت ہوا لیکن سوال اٹھتا ہے کہ آخر افغانستان میں اتنے زلزلے آنے کی وجہ کیا ہے؟

واضح رہے کہ زلزلہ اس وقت آتا ہے جب زمین کی تہہ بنانے والی ٹیکٹونک پلیٹس میں اچانک حرکت ہوتی ہے۔ جس مقام پر ٹیکٹونک پلیٹس ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں وہاں فالٹ لائنز نامی فریکچر وجود میں آتے ہیں۔

افغانستان میں زیادہ زلزلے آنے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ زمین کے جس مقام پر یہ ملک واقع ہے اس کے عین نیچے متعدد فالٹ لائنز موجود ہیں کیوںکہ یہاں انڈین اور یوریشین ٹیکٹونک پلیٹس ایک دوسرے سے ملتی ہیں۔

صرف گذشتہ دو ہفتوں کے دوران ہی افغانستان میں درمیانے درجے کے 10 زلزلے آئے جن کی شدت چار یا اس سے زیادہ ریکارڈ کی گئی۔

اگر گذشتہ ایک سال کی بات کی جائے تو ایک اعشاریہ پانچ سے لے کر چار کی شدت تک کے 219 زلزلے آ چکے ہیں۔

افغانستان زلزلہ

حالیہ زلزلہ اتنا تباہ کن کیوں تھا؟

افغانستان میں گذشتہ ہفتے آنے والا زلزلہ بھی اس دباؤ کا نتیجہ تھا جو زیر زمین انڈین اور یوریشین ٹیکٹونک پلیٹس کے ٹکرانے سے پیدا ہوا۔

امریکی جیولوجیکل سروے کے مطابق اس زلزلے کی شدت 5.9 ریکارڈ کی گئی۔

اگر اس شدت کو سمجھنا ہو تو یہ جان لیں کہ امریکہ ادارہ برائے ایمرجنسی مینیجمنٹ کے مطابق یہ چار لاکھ 75 ہزار ٹن ٹی این ٹی یا بارودی مواد سے خارج ہونے والی توانائی کے برابر ہے۔

اسے دوسرے الفاظ میں بیان کریں تو اس زلزلے نے دوسری عالمی جنگ میں امریکہ کی جانب سے جاپان کے شہر ہیروشیما پر گرائے جانے والے ایٹمی بم سے 37 گنا زیادہ توانائی خارج کی۔

اس زلزلے کے بعد 500 کلومیٹر دور انڈیا اور پاکستان تک جھٹکے محسوس کیے گئے۔

برطانوی جیولوجیکل سروے کے سیسمولوجسٹ ڈاکٹر برائن بیپٹی کہتے ہیں کہ ’افغانستان کا زلزلہ اس لیے اتنا تباہ کن تھا کیونکہ یہ زمین کی سطح سے صرف 51 کلومیٹر نیچے ہوا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’افغانستان کا یہ علاقہ ہمالیہ کی پہاڑیوں پر مشتمل ہے اور اسی لیے یہاں پر ٹیکٹونک پلیٹس براہ راست نہیں ٹکراتیں بلکہ ایک دوسرے سے رگڑ کھا کر گزرتی ہیں۔ اسی وجہ سے یہاں آنے والے زلزلے زیادہ گہرائی میں نہیں آتے اور زمین کی سطح کے نزدیک وقوع پذیر ہوتے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ زلزلہ شدت کے حساب سے درمیانے درجے کا تھا لیکن اگر اس کے اثرات کو دیکھیں تو یہ نہایت تباہ کن ثابت ہوا۔‘

افغانستان زلزلہ

،تصویر کا ذریعہAFP

افغانستان میں پہلے زلزلوں سے کتنی تباہی ہوئی؟

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے انسانی امداد کو آرڈینیشن کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ ایک دہائی کے دوران افغانستان میں آنے والے زلزلے 7000 اموات کا باعث بنے۔ یہاں ہر سال اوسطاً 560 اموات اسی وجہ سے ہوتی ہیں۔

سب سے تازہ ترین واقعہ جنوری میں پیش آیا تھا جب یکے بعد دیگرے دو زلزلوں نے ملک کے مغربی علاقوں میں سینکڑوں مکانات تباہ کر دیے اور 20 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے۔

سنہ 2015 میں آنے والا ہندو کش زلزلہ بھی نہایت تباہ کن تھا جس کی شدت 7.5 تھی۔ اس زلزلے میں تقریبا 400 افراد ہلاک ہوئے تھے جس کی شدت چین کے شنکیانگ صوبے تک محسوس ہوئے تھے۔

مارچ 2002 میں بھی ہندو کش پہاڑوں میں دو زلزلے آئے تھے جن میں 1100 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

اسی سال مئی کے مہینے میں شمالی افغانستان کے تخر اور بدخشاں صوبوں میں 4000 افراد زلزلے کے نتیجے میں ہلاک ہوئے تھے۔ اس زلزلے کے دوران 100 گاؤں اور 16000 مکانات تباہ ہوئے جبکہ 45000 افراد بے گھر ہوئے۔

1998 میں اسی علاقے میں ایک زلزلے میں 4000 افراد ہلاک اور 15000 بے گھر ہو گئے تھے۔

افغانستان میں زلزلے اتنے تباہ کن کیوں ثابت ہوتے ہیں؟

برطانوی جیولوجیکل سروے کے سیسمولوجسٹ ڈاکٹر برائن بیپٹی کے مطابق افغانستان کی نسبت جاپان اور لاطینی امریکہ کے ممالک میں زیادہ زلزلے آتے ہیں۔

’لیکن افغانستان اس لیے زیادہ متاثر ہوتا ہے کیوںکہ یہاں عمارات زلزلے کی شدت کو سہہ نہیں پاتیں۔ یہاں مکانات لکڑی یا پھر کچی مٹی سے بنائے جاتے ہیں یا پھر کمزور کنکریٹ سے۔‘

افغانستان میں زلزلے سے زیادہ نقصان ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ایسی قدرتی آفات کے دوران پہاڑوں سے لینڈ سلائیڈنگ بھی ہوتی ہے جو پہاڑی علاقوں میں بنے گھر تباہ کرنے کے ساتھ ساتھ دریا میں پانی کا راستہ بھی بند کر دیتی ہے اور یوں بڑے پیمانے پر سیلاب آ جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

Damaged buildings in Spera district

،تصویر کا ذریعہGetty Images

افغانستان میں زلزلے سے تباہی کی خبر حکام تک پہنچنے میں بھی بعض اوقات کئی دن لگ جاتے ہیں۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ لینڈ سلائیڈنگ سے راستے اور سڑکیں بند ہو جاتی ہیں اور امدادی ٹیموں اور سامان کی دور دراز پہاڑی علاقوں تک رسائی مشکل ہو جاتی ہے۔

اس کے علاوہ بارش، برفباری یا پھر دھند جیسے موسمی حالات بھی امدادی سرگرمیوں کے راستے میں رکاوٹ بن جاتے ہیں۔

اقوام متحدہ کے مطابق گذشتہ ہفتے کے زلزلے نے افغانستان کو ایک برے وقت پر متاثر کیا۔

ایک بیان میں اقوام متحدہ نے کہا کہ ’افغانستان پہلے ہی ایک شدید بحران سے گزر رہا ہے جب 35 لاکھ ملک کے اندر ہی بے گھر ہیں۔‘

’لاکھوں لوگ بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بھوک کی وجہ سے زندگی گزارنے کی کوشش میں مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔‘