ٹوئٹر نے پاکستان سے وابستہ متعدد اکاؤنٹس کی رسائی انڈیا میں روک دی

نعت

،تصویر کا ذریعہGetty Images

سوشل میڈیا کمپنی ٹوئٹر نے پاکستان میں موجود یا پاکستان سے وابستہ متعدد اکاؤنٹس کی رسائی قانونی وجہ سے انڈیا میں روک دی ہے۔ ان اکاؤنٹس میں پاکستان کا نیویارک میں اقوام متحدہ کا مشن اور دوسرے ملکوں میں چند سفارت خانے بھی شامل ہیں۔

ٹوئٹر ماضی میں انڈین قانون کے تحت حکومت کی درخواست پر اکثر انڈین ٹوئٹر اکاؤنٹس یا مخصوص ٹوئٹس کی رسائی روکتا رہا ہے لیکن اس قانون کے تحت مبینہ طور پر پہلی بار ایسا ہوا ہے جب پاکستان کے متعدد اکاؤنٹس انڈیا میں ’ودہیلڈ‘ کیے گئے ہیں۔

اس پر احتجاج کرتے ہوئے پاکستان کے وزارت خارجہ کے ترجمان نے چار اکاؤنٹس کے نام ٹویٹ کیے جن کی رسائی انڈیا میں روکی گئی ہے۔

ان میں نیویارک میں اقوام متحدہ کے مشن کے علاوہ مصر، ایران اور ترکی میں پاکستانی سفارتخانوں کے اکاؤنٹس شامل ہیں۔

حکومت پاکستان کا ٹوئٹر اکاؤنٹ بھی انڈیا میں قابل رسائی نہیں ہے، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ اس کی رسائی کب روکی گئی ہے۔

ٹویٹر نے ای میل کے ذریعے بتایا کہ ’جیسا کہ ہماری ’کنٹری ود ہیلڈ پالیسی‘ میں وضاحت کی گئی ہے، درست قانونی مطالبے کے جواب میں کچھ مواد کی رسائی کو روکنا ضروری ہو سکتا ہے۔‘

پاکستان

،تصویر کا ذریعہTWITTER

ٹویٹر نے یہ نہیں بتایا کہ یہ کارروائیاں انڈیا کے کن مخصوص قوانین کے تحت کی گئیں ہیں۔ لیکن صارفین کے ذریعے شیئر کیے گئے سکرین شاٹس اور اس طرح کے گذشتہ واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس طرح کی کارروائیاں آئی ٹی ایکٹ 2000 کے سیکشن 69A کے تحت کی گئی ہیں۔

انڈیا کے آئی ٹی قانون کا یہ سیکشن حکومت کو اجازت دیتا ہے کہ وہ ’انڈیا کی خودمختاری اور سالمیت کے مفاد میں، اس کی دفاع، سلامتی، غیر ملکی ریاستوں کے ساتھ دوستانہ تعلقات یا امن عامہ کے مفاد میں یا اس سے متعلق کسی بھی جرم کو بھڑکانے کو روکنے کے لیے کسی ثالث تک عوام کی رسائی کو روک سکے۔‘

لداخ میں جون 2020 میں انڈیا اور چین کے سرحدی تنازعے کے بعد بھی قانون کے اسی سیکسن کے تحت انڈیا نے چین میں مقیم سوشل میڈیا کمپنیوں اور ایپس پر پابندی لگائی تھی۔

لیومین ڈیٹا بیس، جو کہ قانونی شکایات اور آن لائن مواد کو ہٹانے کی درخواستوں کو اکٹھا کرتا ہے اور ان کا تجزیہ کرتا ہے، سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان سے تعلق رکھنے والے دیگر اکاؤنٹس بھی ہیں جنھیں حکومت ہند نے ٹوئٹر کو انڈیا میں رسائی روکنے کا حکم دیا ہے، مثلا مرتضیٰ علی شاہ اور مشال ملک۔

پابندی

،تصویر کا ذریعہTwitter

گذشتہ چند دنوں میں کویتی وکیل مجبل الشوریقہ اور صحافی سی جے ورلیمین کے ٹوئٹر اکاؤنٹس بھی انڈیا میں ناقابل رسائی ہوئے۔

انڈیا سے متعلق اکاؤنٹس میں ٹوئٹر نے حال ہی میں ملک میں دو کسان رہنماؤں کے اکاؤنٹس کی رسائی روک دی ہے۔

یہ بھی پڑھیئے

صحافی رعنا ایوب نے 26 جون کو ایک ٹویٹ کی کہ ان کی ماضی میں کی گئی ایک ٹویٹ کو انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ 2000 کے تحت انڈیا میں روک دیا گیا ہے۔

انٹرنیٹ آرکائیو سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ٹویٹ رعنا ایوب نے اپریل 2021 میں کی تھی اور اس میں معاشرے، عدالت اور حکومت پر تبصرہ تھا۔

انڈیا

،تصویر کا ذریعہ@RanaAyyub

انڈیا میں سوشل میڈیا پر ان میں سے کچھ کارروایئوں کے خلاف غم و غصے کا اظہار کیا گیا لیکن لیومین کے ڈیٹا بیس سے پتہ چلتا ہے کہ حال ہی میں انڈیا میں بند کئے گئے زیادہ تر اکاؤنٹس اور ٹویٹس حکومت ہند کی 2021 کی درخواست کے بنا پر بند کیے گئے ہیں۔

Twitter پوسٹ نظرانداز کریں, 1
Twitter کا مواد دکھانے کی اجازت دی جائے؟?

اس تحریر میں ایسا مواد ہے جو Twitter کی جانب سے دیا گیا ہے۔ کسی بھی چیز کے لوڈ ہونے سے قبل ہم آپ سے اجازت چاہتے ہیں کیونکہ یہ ممکن ہے کہ وہ کوئی مخصوص کوکیز یا ٹیکنالوجیز کا استعمال کر رہے ہوں۔ آپ اسے تسلیم کرنے سے پہلے Twitter ککی پالیسی اور پرائیویسی پالیسی پڑھنا چاہیں گے۔ اس مواد کو دیکھنے کے لیے ’تسلیم کریں، جاری رکھیں‘ پر کلک کریں۔

Twitter پوسٹ کا اختتام, 1

انڈیا کے پبلک بروڈکاسٹر پرسار بھارت کے سابق سی ای او، ششی شیکھر ویمپتی نے ٹویٹر پر اعلان کیا کہ انھیں بھی ایسا ہی ایک نوٹس ملا ہے لیکن انھوں نے لکھا کہ ’یہ ماضی کے واقعات پر مشتمل ایک ’بگ‘ یا تاخیر سے دیا گیا ردعمل لگتا ہے۔‘

انٹرنیٹ کی آزادی کے لیے کام کرنے والی بنگلور میں مقیم تنظیم انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن کے ذریعے لیومین ڈیٹا بیس (جس کا حوالہ ٹیوٹر نے بھی اپنی ای میل کے ذریعے دیے گئے جواب میں دیا) کے مطالعہ کے مطابق اس پر دو قانونی درخواستوں کی فہرست ہے جن میں دونوں درخواستوں کے درمیان چند ’اوور لیپنگ‘ اکاؤنٹس ہیں اور کچھ اکاؤنٹس ایسے بھی ہیں جو کہ اس لسٹ میں ہیں لیکن اب بھی فعال ہیں۔

ٹوئٹر

،تصویر کا ذریعہTwitter

اکاؤنٹس کی رسائی روکنے کی حالیہ پیشرفت کچھ ہفتوں کے بعد ہوئی ہے جب انڈیا کی وزارت اطلاعات و نشریات نے ملک کی قومی سلامتی، خارجہ تعلقات اور امن عامہ سے متعلق غلط معلومات پھیلانے کے الزام میں 16 یوٹیوب نیوز چینلز بشمول 6 پاکستان کے چینلز کو بلاک کر دیا تھا۔