چار ایجادیں جو کینسر کے علاج میں انقلاب لا سکتی ہیں

  • ریڈکسیون
  • بی بی سی نیوز منڈو
سر پر سکارف

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنپچھلی ایک دہائی کے دوران بعض ٹیومر یا رسولیوں کے علاج میں حقیقی انقلاب آیا ہے

سرطان یا کینسر کا شمار دنیا میں سب سے زیادہ پائے جانے والے امراض میں ہوتا ہے۔ خوش قسمتی سے اس کے علاج میں مسلسل پیش رفت ہو رہی ہے۔

دنیا بھر سے ڈاکٹر ہر سال امریکی ریاست شکاگو میں یکجا ہو کر کینسر کی تشخیص اور علاج میں ہونے والی ترقی سے ایک دوسرے کو آگاہ کرتے ہیں۔

امریکن سوسائٹی آف کلینیکل آنکولوجی کے اس سال کے اجلاس میں پیش کی گئی تحقیق سے سرطان کے علاج کی مزید امید پیدا ہو گئی ہے اور آنکولوجسٹس یا کینسر کے علاج کے ماہرین کے مطابق بعض طرح کے ٹیومر یا رسولیوں کو ختم کرنے سے متعلق نقطۂ نظر میں تبدیلی پیدا ہوئی ہے۔

ان میں سے کچھ دریافتوں یا پیشرفتوں کا یہاں ذکر کرتے ہیں اور یہ کہ ان کا مطلب کیا ہے۔

1۔ بریسٹ (چھاتی کا) کینسر: ایک دوا جس سے زیادہ لوگوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے

نس کے ذریعے دی جانے والی دوا ٹراسٹوزوماب چھاتی کے سرطان کے علاج کے لیے کئی دہائیوں سے استعمال کی جا رہی ہے۔

یہ ایک مؤثر دوا ہے مگر صرف ان مریضوں میں کام کرتی ہے جن کے اندر ایک خاص جین ایچ ای آر ٹو ( HER2) پائی جاتی ہے۔

اب ڈیروکسٹیکین نامی ایک نیا مرکب ٹراسٹوزوماب کے اثر کو بڑھا سکتا ہے۔

برازیل کے دارالحکومت برزیلیا میں قائم سیرین-لیبنیز ہاسپیٹل میں آنکولوجسٹ (سرطان کے ماہر) روملڈو بروسو کہتے ہیں، ’ہمیں ایک انقلابی دوا کی آمد نظر آ رہی ہے۔‘

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ ٹیومر پر دھوکے سے حملہ آور ہوتی ہے۔ یعنی یہ جسم کے اندر داخل ہوتے وقت کچھ اور لگتی ہے اور جب اپنا کام شروع کرتی ہے تو کچھ اور بن جاتی ہے۔

ٹراسٹوزوماب ایک طرح سے مونوکلونل اینٹی باڈی ہے جو چھاتی کے کینسر کے معاملے میں کینسر کے خلیوں کی سطح پر پائے جانے والے ریسپٹروں سے چمٹ جاتی۔ اس عمل کے نتیجے میں جسم کا مدافعتی نظام (امیون سسٹم) حرکت میں آ جاتا ہے اور کینسر کے خطرے کو بھانپ کر اس کے خلاف جنگ شروع کر دیتا ہے۔

مونوکلونل اینٹی باڈیز

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنٹیومر پر حملہ آور ہونے کے لیے مونوکلونل اینٹی باڈیز اس کی سطح سے ’چمٹ‘ جاتی ہیں

اس کے ساتھ ہی ڈیروکسٹیکین بیمار خلیوں کے اندر داخل ہو کر کیموتھراپی کا عمل شروع کر دیتا ہے اور ٹیومر کو اندر سے تباہ کر دیتا ہے۔

اس علاج کا نیا پن صرف اس کے طریقہ کار میں نہیں بلکہ یہ دوا ان مریضوں میں بھی کارگر ہے جن میں ایچ ای آر ٹو جین زیادہ ترقی یافتہ شکل میں موجود نہیں ہوتا۔

یہ دوا ہر 21 روز بعد رگ یا ورید کے انجیکشن کے ذریعے دی جاتی ہے۔ اس وقت یہ دوا ہسپتالوں میں استعمال کے لیے مجاز اداروں کی جانب سے توثیق کے مرحلے میں ہے۔

شروع میں یہ دوا ان مریضوں میں استعمال کی جا سکتی ہے جن میں دوسری دوائیں ناکام رہی ہوں اور سرطان جڑیں پھیلا رہا ہو۔ آنکولوجسٹ بروسو کا کہنا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ یہ کینسر کے ابتدائی علاج میں بھی استعمال ہونی لگے گی۔

2۔ ریکٹل کینسر: حیرت انگیز دوا

یہ ایک ایسی دوا ہے جس کے نتائج ڈاکٹروں کے لیے بھی حیران کن ہیں کیونکہ ابتدائی آزمائش کے دوران ریکٹل کینسر (بڑی آنت کے آخری حصےکے سرطان) کے جن مریضوں کو یہ دوا دی گئی وہ بالکل ٹھیک ہو گئے۔

اس دوا کا نام ڈوسٹرلِیمیب ہے اور یہ دوسری اقسام کے ٹیومر کے علاج کے لیے پہلے سے زیر استعمال ہے۔ یہ امیون سسٹم یا جسم کے مدافعتی نظام کو تحریک دیتی جس سے وہ کینسر زدہ خلیات پر حملہ کر دیتا ہے۔

آزمائش کے دوران یہ دوا 12 مریضوں کو دی گئی اور چھ ماہ تک ان کی نگرانی کی گئی۔ آزمائش مکمل ہونے پر کسی بھی مریض میں کینسر کی کوئی علامت باقی نہیں تھی۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ مریض آپریشن، ریڈیو تھراپی (شعاعی علاج) یا کِیموتھراپی جیسے شدید علاج سے بچ گئے۔

ساؤ پاؤلو میں قائم اے سی کیمرگو کینسر سینٹر سے وابستہ آنکولوجسٹ ریچل ریئچلمین کا کہنا ہے کہ ’یہ بات ڈاکٹروں کے لیے بھی حیران کن تھی۔‘

اس دریافت کے باوجود کئی باتوں کو نظر میں رکھنا ہوگا۔

بڑی آنت میں ٹیومر

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنریکٹم یعنی بڑی آنت کے آخری حصے کے اندر ظاہر ہونے والے ٹیومر یا رسولیوں کا علاج آپریشن، شعاعوں اور کیموتھراپی سے کیا جاتا ہے

پہلی بات تو یہ ہے کہ نگرانی کا وقت صرف چھ ماہ تھا جو کہ تھوڑا ہے۔ ریئچلمین کہتی ہیں کہ ’ہو سکتا ہے کہ چند سال بعد مرض پھر سے نمودار ہو جائے۔‘

دوسری بات یہ ہے کہ دوا صرف ان مریضوں میں موثر ہے جن میں ٹیومر ’مائکروسیٹیلائٹ انسٹیبیلیٹی‘ ( MSI-H) کے ساتھ ہوں۔ اس معیار پر ریکٹل کینسر کے تقریباً ایک فیصد کیسز پورا اترتے ہیں۔

اس نئے علاج کے لیے ابھی اس کی منظوری نہیں دی گئی ہے تاہم تحقیق جاری ہے۔

3۔ کولوریکٹل کینسر: ایک ٹیسٹ جس کی مدد سے مریض غیر ضروری کِیموتھراپی سے بچ جاتا ہے

ایک اور اختراع یا ایجاد آسٹریلیا سے محققین کی ایک ٹیم نے پیش کی جس کا مقصد کینسر کے مریضوں کے جسم میں کم سے کم مداخلت کرنا ہے۔

خون کے نمونے

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ لِکوِڈ بایوپسی مستقبل میں سرطان کے علاج میں مدد گار ہو سکتی ہے

انھوں نے ایک ایسے طریقۂ کار پر تحقیق کی جسے ’لِکوِڈ بایوپسی‘ کہتے ہیں۔ اس کے تحت رسولی کے ان ٹکڑوں کا پتا لگانا ہے جو ٹیومر کے ڈی این اے سے ٹوٹ کر خون میں شامل ہو جاتے ہیں۔

کولوریکٹر کینسر کے (اس جگہ کا کینسر جہاں بڑی آنت کا بالائی اور نچلا حصہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں) مریضوں کو آپریشن کروانا پڑتا ہے جس میں آنت کا متاثرہ حصہ کاٹ دیا جاتا ہے۔ آپریشن کے بعد بہت سے مریضوں کو کیموتھراپی کروانا پڑتی ہے تاکہ اگر ٹیومر کے کچھ خلیات باقی رہ گئے ہوں تو انھیں ختم کیا جا سکے۔

اس طرح مرض کے دوبارہ لاحق ہونے کا خدشہ کم ہو جاتا ہے۔ مگر یہ علاج بڑا سخت ہے اور اس کے سائڈ اِیفیکٹس (ضمنی اثرات) ہو سکتے ہیں۔

’لِکوِڈ بایوپسی‘ کی مدد سے یہ معلوم ہو سکے گا کہ مریض کو کیموتھراپی کی ضرورت ہے یا نہیں۔

یہ تحقیق 455 رضاکاروں پر گئی۔ ساؤ پاولو میں قائم آنکوکلینِکس پرِیسِیشن میڈیسن سے وابستہ آنکولوجسٹ روڈریگو ڈائنسٹمین کہتے ہیں کہ ’اس کی مدد سے کیموتھراپی کے ضرورتمند مریضوں کی تعداد آدھی ہو سکتی ہے، جبکہ ان کے بچ جانے کی شرح متاثر نہیں ہو گی۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’لِکوِڈ بایوپسی ایک انقلابی امکان پیش کرتی ہے۔‘

4۔ پینکریاٹِک کینسر (لبلبے کا سرطان): کامیاب علاج کی امید

لبلبے کا کینسر ان سرطانوں میں شمار کیا جاتا ہے جن کے علاج کا اندازہ کرنا دشوار ہے۔

گزشتہ 10 سالوں کے دوران ہونے والی پیش رفت کیموتھراپی سے ہونے والے علاجوں تک محدود رہی ہے۔ جہاں تک اِمیونوتھراپی یا مونوکلونل اینٹی باڈیز جیسے جدید اور کم شدید معالجے کا تعلق ہے تو اس قسم کے مریضوں میں ابھی تک مثبت نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔

لبلبہ

،تصویر کا ذریعہGetty Images

،تصویر کا کیپشنلبلبے (پینکریاس) کا کینسر سب سے زیادہ تیزی سے پھیلتا ہے اور اس کے بغیر آپریشن علاج کے چند ہی جدید طریقے موجود ہیں۔

اس قسم کے کینسر کے علاج کے لیے اب پہلی بار ایسے ٹیسٹ متعارف کروائے گئے ہیں جن میں سی اے آر-ٹی سیل ( CAR-T cell) کا طریقہ اپنایا گیا ہے۔

اس میں مریض کے اپنے امیون سسٹم کے خلیے نکالنے کے بعد لیبارٹری میں ان میں تبدیلی لائی جاتی ہے اور ان تبدیل شدہ خلیوں کو پھر سے مریض کے جسم میں داخل کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ ٹیومر پر حملہ کر دیں۔

یونیورسٹی آف ساؤ پاؤلو میں کلینیکل آنکولوجی کے پروفیسر پاولو ہوف کا کہنا ہے کہ ’اگرچہ یہ بات نہایت دلچسپ ہے، مگر یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو کل سے ہمارے شفاخانوں میں دستیاب ہو جائے گی۔

’ابھی تو بہت سفر باقی ہے، مگر اب کم سے کم یہ امید پیدا ہو گئی ہے کہ ہم صحیح راستے پر چل نکلے ہیں۔‘